Maktaba Wahhabi

521 - 589
[جو لوگ اسماے الٰہیہ میں الحاد کرتے ہیں انھیں چھوڑ دو، عنقریب انھیں اپنے کیے کا بدلہ مل جائے گا] کی تفسیر میں لکھا ہے کہ جو لوگ اللہ کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں ، حق و صواب کو چھوڑ دیتے ہیں اور اسماے حسنی کے سوا دیگر نام تراشتے ہیں ، ان کو چھوڑ دو، وہ اپنے کیے کی سزا پالیں گے۔ یہ خود تراشیدہ نام وہ ہیں جنھیں اللہ نے اپنے لیے نہیں بتلایا، جیسے: یا سخی، یا رفیق وغیرہ۔ اسی طرح یہ بھی الحاد میں داخل ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے جوہر، جسم، عقل، علت، واجب الوجود، علۃ العلل اور اول الاوائل وغیرہ خود تراشیدہ الفاظ استعمال کیے جائیں ۔ تھوڑی دیر اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ان کے معانی صحیح ہیں ، پھر بھی توقیف الٰہی ایسی خود تراشیدگی سے روکتی ہے۔ بعض علما کا خیال ہے کہ اسماے الٰہیہ میں الحاد کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ کے ناموں کو غیر اللہ کے لیے بولا جائے، جیسا کفار نے کہا تھا کہ انھوں نے اپنے بتوں کے نام لات، عزیٰ اور منات؛ اللہ، عزیز، اور منان سے نکال کر ٹھہرائے تھے۔ مسیلمہ کذاب نے اپنا نام ’’رحمن‘‘ رکھا تھا۔ اسی قسم میں یہ بھی داخل ہے کہ بعینہٖ اسماے الٰہیہ کو کسی مخلوق کے لیے استعمال کیا جائے، جیسا کہ ہندو راجاؤں کو اَن داتا یعنی رازق کہتے ہیں ، حالانکہ یہ وصف اللہ کے لیے ہے۔ اس وصف میں اللہ کے ساتھ کسی امیر اور رئیس کو غریب پرور اور خدا وندِ نعمت کہنا درست نہیں ، اس لیے کہ یہ الفاظ رب اور ولیِ نعمت کا ترجمہ ہیں ۔ دوسرے اللہ کا وہ نام رکھنا جو جائز نہیں ، جیسے: ابو المسیح، ابو العزیر وغیرہ۔ نصاریٰ اسے اب، ابن اور روح القدس کہتے ہیں ۔ کرّامیہ اللہ کی تعبیر لفظ جسم سے کرنا جائز سمجھتے ہیں ۔ معتزلہ اثناے کلام میں لکھ جاتے ہیں کہ اگر اللہ ایسا کرتا تو سفیہ اور مستحق الذم ہوتا۔ نعوذ باللّٰه۔ ان الفاظ میں نہایت درجے کی بے ادبی اور گستاخی ہے۔ ایسی بول چال، گفتگو اور باہمی تکلم سے رب پاک کی تنزیہ ضروی ہے۔ تیسرے یہ کہ بندہ اپنے رب کا ذکر ایسے لفظ سے کرے جس کے وہ معنی جانتا ہے نہ اس کے مسمی کو پہچانتا ہے، شاید وہ مسمی ایسا ہو جو اللہ ذوالجلال کے وصف کے شایانِ شان نہ ہو۔ یہ تینوں قسمیں الحاد کی ہیں ۔ معلوم ہوا کہ جس لغت اور زبان کا کوئی شخص عالم و عارف نہ ہو، اس لغت کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے نہ بولے، خواہ وہ لفظ برا ہو یا نہ ہو، اس لیے کہ یہ بات خلافِ توقیف ہے۔ پس جو اسم و صفت شریعت میں وارد نہیں ہے، اس کے اطلاق سے احتراز کرنا چاہیے۔ اللہ کے اسماے حسنٰی کیا کم ہیں کہ ان کو چھوڑ کر تیرے میرے نام رکھے ہوئے پکارے جائیں ؟
Flag Counter