Maktaba Wahhabi

527 - 589
ہے۔ یہ حضرات ﴿لَنْ﴾ کو نفیِ تابید کے لیے مانتے ہیں ، لیکن ان کا یہ دعویٰ باطل ہے۔ عربی زبان میں اس دعوے کا ثبوت موجود نہیں ، بلکہ ان کا یہ دعوی محض لن ترانی ہے۔ رویتِ باری پر تمام صحابہ، تابعین اور ائمہ اسلام کا اتفاق ہے۔ رویتِ الٰہی کے منکر فقط جہمیہ، معطلہ، باطنیہ اور رافضیہ ہیں ۔ ان کی دوسری دلیل ﴿لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ﴾ [آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں ] ہے۔ یہ ان کی بصیرت و بصارت کا قصور ہے کہ اس آیت سے نفیِ رویت سمجھتے ہیں ، حالانکہ یہی آیت ثبوتِ رویت کی دلیل ہے، کیونکہ اس میں ادراک کی نفی فرمائی گئی ہے، رویت کی نہیں ۔ ادراک اور چیز ہے اور رویت اور چیز۔ بہت سی چیزیں دیکھی جاتی ہیں ، لیکن ان کی حقیقت کا ادراک نہیں ہو پاتا۔ امام صابوبی رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ اہلِ سنت اس بات کے گواہ ہیں کہ اہلِ ایمان اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور اللہ کی طرف نظر کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح حدیث میں آیا ہے: (( فَإِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ کَمَا تَرَوْنَ الْقَمَرَ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ )) [1] [تم لوگ اپنے رب کو ایسے ہی دیکھو گے جس طرح چودھویں رات کے چاند کو دیکھتے ہو] یہ رویت کی رویت سے تشبیہ ہے نہ کہ مرئی کی تشبیہ مرئی سے۔ امام زہری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں بڑی مناسب بات کہی ہے: ’’علی اللّٰه البیان، وعلی الرسول البلاغ، و علینا التسلیم‘‘[2] [اللہ نے بیان کر دیا، رسول نے پہنچایا دیا اور ہمیں ماننا چاہیے] رویتِ باری دو طرح ہو سکتی ہے۔ ایک انکشاف تام بلیغ، یہ عقلی تصدیق سے زائد چیز ہے اور نظری علم سے برتر۔ اس کو یوں سمجھیں جیسے ایک شخص چاند کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اس حالت میں چاند اس پر منکشف رہتا ہے اور چاند کی صورت اس کی نگاہِ دل میں پھرتی رہتی ہے۔ یہ انکشاف بلاشبہہ نظر کے انکشاف سے ایک زائد انکشاف ہوتا ہے۔ اس دیکھنے کو آنکھ کا دیکھنا کہہ سکتے ہیں ، لیکن یہ رویت مقابلہ، جہت، لون اور شکل کی تعیین کے بغیر ہوتی ہے۔ اس رویت کی مثال ایسے ہے، جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (( إِنِّيْ أَرَاکُمْ مِنْ وَّرَائِ ظَھْرِيْ )) [3] [میں تم لوگوں کو اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھتا ہوں ]
Flag Counter