Maktaba Wahhabi

419 - 589
[اللہ تعالیٰ نے باوجودیکہ آخرت میں شفاعت واقع ہو گی، اس کی نفی کی ہے، کیونکہ شفاعت اس حیثیت سے کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر نفع مند نہ ہو گی، ایسے ہی ہے گویا وہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کی طرف سے غیر موجود ہے اور ہے ہی نہیں ۔ تا کہ لوگوں کے مرتبے واضح ہوں ۔ جملہ نافیہ [لیس لھم من دونہ ولی ولا شفیع] ﴿یحشروا﴾ کی ضمیر سے حال واقع ہو رہا ہے اور اس سے مراد گناہ گار مومن ہیں ] یعنی کسی گناہ گار مومن کو بھی یہ اعتقاد نہیں رکھنا چاہیے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر اس کی شفاعت ہو گی۔ پس جب ایمان والوں کا یہ حال ہے تو مشرکین، کفار اور فجار کس گنتی میں ہیں ؟ ان کی شفاعت تو ہر گز کسی طرح بھی نہ ہو گی، چنانچہ شفاعت کی نفی والی آیات اس پر دلیل ہیں ۔ پھر آیت کریمہ: ﴿یَوْمَئِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوْلًا﴾ [طٰہٰ: ۱۰۹] [اس دن سفارش نفع نہ دے گی مگر جس کے لیے رحمان اجازت دے اور جس کے لیے وہ بات کرنا پسند فرمائے] کے تحت لکھا ہے: ’’دل علی أن الشفاعۃ تکون للمؤمنین فقط‘‘ انتھیٰ۔ [مذکورہ بالا آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قیامت کے دن صرف مومنوں ہی کی شفاعت ہو گی] یہاں ایمان والوں سے مراد اہلِ توحید خالص ہیں ۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی اس بات کا انکار کیا ہے کہ وہ غیر اللہ کی عبادت سے تقرب و شفاعت کا ارادہ رکھتے ہیں ، پھر لکھا ہے: ’’قد أرسل رسلہ من أولھم إلی آخرھم، یزجرھم عن ذلک، وینھاھم عن عبادۃ ما سوی اللّٰه فکذبوھم‘‘[1] انتھیٰ [اللہ تعالیٰ نے از اول تا آخر اپنے رسول علیہم السلام مبعوث کیے، تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس عقیدے سے ڈانٹ ڈپٹ کریں اور انھیں اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت سے منع کریں ، مگر لوگوں نے ان رسولوں کی تکذیب کی] اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جن مشرکوں سے قتال کیا تھا، ان مشرکوں کا غیر اللہ کی عبادت سے مطلب فقط اللہ کا قرب حاصل کرنا اور اللہ کے ہاں شفاعت طلب کرنا تھا۔ مردوں
Flag Counter