Maktaba Wahhabi

397 - 589
(( مَنْ کَانَ آخِرُ کَلَامِہِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ )) (رواہ أبو داؤد) [1] [جس کا آخری کلام ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘‘ ہوگا؟ وہ جنت میں جائے گا] اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس کی عبادت کو دل چاہے اور وہی ہے جس سے فریاد رسی کی جائے اور اسی سے امید اور اسی کا ڈر اور اجلال و اکرام ہو ۔۔۔ الخ۔[2] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’کتاب اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ میں آیت کریمہ: ﴿وَ مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ﴾ [بقرۃ: ۱۷۳] [جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے] کی تفسیر میں کلام کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’إن الظاہر أنہ ما ذبح لغیر اللّٰہ سواء لفظ بہ أولم یلفظ، و تحریم ھذا أظھر من تحریم ما ذبحہ، وقال فیہ: باسم المسیح و نحوہ کما أن ما ذبحناہ متقربین بہ إلی اللّٰہ کان أزکی مما ذبحناہ للحم، وقلنا علیہ باسم اللّٰہ‘‘[3] [یقینا یہ بات ظاہر ہے کہ جو غیر اللہ کے لیے ذبح کیا جائے، خواہ ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام زبان سے ادا کیا جائے یا نہ کیا جائے، بہر حال اس کی حرمت اس جانور کی حرمت سے زیادہ ظاہر اور سخت ہے جس کو ذبح کرتے وقت مسیح وغیرہ کا نام لیا جائے، جیسے وہ جانور جسے ہم اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کریں ، وہ زیادہ پاکیزہ ہو گا اس جانور کی نسبت جس پر ہم اللہ کا نام لے کر گوشت کھانے کے لیے ذبح کریں ] اس لیے کہ نماز اور ذبح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا کاموں کے آغاز میں اللہ کے نام سے استعانت سے برتر ہے اور غیر اللہ کی عبادت کرنا غیر اللہ کی استعانت سے برتر ہے۔ لہٰذا اگر غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیا ہے اور اس سے مقصود اس غیر اللہ کا تقرب ہے تو یہ ذبح حرام ہے، اگرچہ اسے ذبح کرتے ’’بسم اللہ‘‘پڑھی ہو، جس طرح کہ اس امت کے منافقوں کا ایک گروہ یہ کام کرتا ہے۔ یہ لوگ مرتد ہیں ، کسی صورت ان کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔ دوسری جگہ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ قبروں کے پاس نماز ادا کرنے سے ممانعت کی علت یہ
Flag Counter