Maktaba Wahhabi

313 - 589
اور کھلواڑ کو دیکھنا چاہیے کہ یہ ایک مستقل علم ٹھہر گیا ہے!!‘‘ [1] ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا لاَ یَخْفَوْنَ عَلَیْنَا﴾ [فصلت: ۴۰] [ بے شک وہ لوگ جو ہماری آیات کے بارے میں ٹیڑھے چلتے ہیں ، وہ ہم پر مخفی نہیں رہتے] سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر میں کہا ہے: ’’ ھو أن یوضع الکلام في غیر موضعہ‘‘[2] یعنی آیات میں الحاد کا مطلب یہ ہے کہ کلام کو اس کے غیر محل میں رکھا جائے، اس میں اس شخص کا رد ہے جو قرآن مجید کی ایسی تفسیر کرتا ہے جس پر جوہرِ لفظ دلالت نہیں کرتا، جس طرح کہ باطنیہ، اتحادیہ، ملاحدہ اور غالی متصوفہ کا حال ہے۔ امام علی خواص رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’إیاک أن تؤول أخبار الصفات فإن في ذلک وسوسۃ من الشیطان لیفوت المؤمن الإیمان بعین ما أنزل اللّٰه تعالیٰ، قال تعالیٰ: ﴿اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ [البقرۃ: ۲۸۵] و ھذا المؤول ما آمن حقیقۃً إلا بما أولہ بعقلہ، ففاتہ الإیمان بعین ما أنزل اللّٰه تعالیٰ فلیتأمل‘‘ [صفات والی اخبار (ونصوص) کی تاویل کرنے سے بچو! یقینا اس میں شیطان کی طرف سے ایک ایسا وسوسہ ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مومن کا ایمان بعینہ اس چیز کے ساتھ ایمان نہیں رہتا جو اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ [البقرۃ: ۲۸۵] [رسول اس پر ایمان لایا جو اس کے رب کی جانب سے اس کی طرف نازل کیا گیا اور مومن بھی] اور جو تاویل کرنے والا ہوتا ہے وہ حقیقت میں صرف اسی تاویل پر ایمان لاتا ہے جو اس کی عقل کرتی ہے، تو اس کا ایمان اس طرح نہیں رہتا جس طرح کا ایمان مذکورہ ارشاد
Flag Counter