Maktaba Wahhabi

311 - 589
یہ آیت پکار کر کہتی ہے کہ رافضی اور صوفی اور وہ لوگ جو اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن و حدیث فقط رموز ہیں اور ان رموز کا حل ائمہ اور اولیا کے پاس ہے، نیز ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ اپنی لغوی دلالت پر نہیں ہیں ، بلکہ ظاہری مفہوم کے علاوہ ان کا ایک باطنی مفہوم ہے۔ یہ سب دروغ گو، جھوٹے اور مکار ہیں ، اسی لیے ان کا نام باطنیہ ٹھہرا ہے۔ ان کا نام جو باطنیہ رکھا گیا ہے تو یہ نام ایک قدرِ مشترک ہے ان لوگوں کے درمیان جن کا ظاہر اسلام ہے، جیسے امامیہ فرقہ اور متصوفہ، اور ان لوگوں کے درمیان جو امامیہ اور متصوفہ کے دونوں ناموں میں پوشیدہ ہیں ، بہر حال یہ تمام لوگ دین کے دشمن اور شریعت مطہرہ کے مخالف ہیں ۔ ان لوگوں میں قدرِ مشترک یہی ان کی واضح گمراہی ہے، جس نے تمھیں پریشان کر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی لگائی ہوئی آگ کو بجھائے اور ان کی سازشوں کو ناکام کرے۔ یہ لوگ قرآن مجید میں ، مقتضاے وضع کے مطابق مدلولاتِ الفاظ میں اور مجاز کی شرط کے مطابق حقیقت یا مجاز میں تدبر اور غور و فکر نہیں کرتے کہ دوسرے لوگ جو ایک دوسرے کے کلام سے سمجھتے ہیں ، وہی بات یہ بھی سمجھیں اور تراکیبِ صحیحہ کا ادراک کریں اور مبسوط عبارت سے جو معنی حاصل ہوتے ہیں ، ان کو مختصر عبارت میں ادا کریں ۔ صحیح تفسیر اسی کا نام ہے اور یہی تفسیر مقبول ہے، کیوں کہ اسی تفسیر کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے اور ہر صحیح نظر و فکر رکھنے والے شخص کے ہاں یہ بات معلوم و معروف ہے، کیونکہ نزولِ قرآن کا یہی فائدہ ہے اور یہی بات حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں بھی بیان ہوئی ہے اور تفسیر نبوی کا طریقہ مقبولہ ہے۔ مگر باطل فرقوں کے یہ پیرو کار ایسا نہیں کرتے ہیں ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا﴾ [محمد: ۲۴] [تو کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے، یا کچھ دلوں پر ان کے قفل پڑے ہوئے ہیں ؟] ان لوگوں میں یہ بات عام کہی اور سنی جاتی ہے کہ احکام کو کتاب و سنت سے اخذ کرنا ممتنع ہے، حتی کہ ان کے بعض لوگوں نے یہ تک کہا ہے کہ ائمہ کے دور کے بعد ابنِ جریر کے سوا کسی نے اس کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ تو یہ ان کی طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کے دلوں پر مضبوط تالا لگا ہوا ہے، اسی لیے ان کو واضح کذب بیانی کی جرات ہوتی ہے۔ نسأل اللّٰه العافیۃ۔
Flag Counter