Maktaba Wahhabi

203 - 589
’’نعم الإخوۃ بنو إسرائیل، إذا کان کل حلوۃ لکم، وکل مرۃ لھم‘‘ [بنی اسرائیل اچھے بھائی ہیں ۔ ہر میٹھا تمھارے لیے اور ہر کڑوا ان کے لیے ہوتا ہے!] اصولِ فقہ میں لکھا ہے کہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک پہلے لوگوں کے شرائع ہمارے لیے بھی شرع ہیں ۔ ایک امام کے نزدیک تب شرع ہیں جب ان کی تقریر و تائید ہماری شرع میں آ چکی ہو۔ بہر حال یہ مسائل اسی طرح ہیں کہ ہماری شرع نے ان کو مقرر رکھا ہے اور قرآن و حدیث ان پر گواہ ہے۔ یہ تو ہوا ان کے سوال کا جواب، ورنہ جس بات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مشرکینِ عرب کو منع کیا تھا، اس پر ان سے قتال کیا تھا اور اس کے متعلق قرآن اترا ہے، وہ سب آیات محکم ہیں ، منسوخ نہیں ہوئی اور اس امت کے اول و آخر سب کے حق میں نازل ہوئی ہیں ، بلکہ وہ آیات جو ہم سے پہلے لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہیں ، وہ سب بھی محکم ہیں ، حالانکہ ہماری شریعت اور سنتِ مطہرہ ان سے بے نیاز کرتی ہے۔ فقد أغنت و أقنت و کفت و شفت و أعادت و أبدت و أظھرت و نصت، وللّٰه الحمد۔ سورت بقرہ کی آخری آیات کی تفسیر میں یہ بیان ہوا ہے کہ ان لوگوں نے کہا تھا: کیا ہم کو ایسے عمل کی تکلیف دی گئی ہے جس کی ہمیں طاقت نہیں ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا تم وہ بات کہنا چاہتے ہو جو تم سے پہلے لوگوں نے کہی تھی؟ انھوں نے کہا تھا: (( سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا )) [1] [ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی] اس جگہ ان کی اس بات کو کہ ہمیں ایسی چیز کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے جس کی ہم میں طاقت نہیں ہے، سابقہ امتوں کے قول جیسا ٹھہرایا گیا ہے۔ سیدہ عائشہr سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب بادل کو آتا ہوا دیکھتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرۂ مبارک کا رنگ بدل جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پریشانی کے عالم میں اندر باہر آنے جانے لگتے، جب بارش برس جاتی تب جا کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ کیفیت دور ہوتی۔ میں نے سوال کیا: کیا بات ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تجھے کیا معلوم؟ کہیں ویسی بات نہ ہو جیسی ایک قوم نے کہی تھی اور کلامِ الٰہی میں اس کا یوں بیان ہوا ہے: ﴿ فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِھِمْ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا بَلْ ھُوَ
Flag Counter