Maktaba Wahhabi

981 - 644
میں اپنا مرکز بنا یا تھا۔ مَیمنہ پر خالد بن ولید تھے جو ابھی مشرک تھے ، مَیْسرہ پر عکرمہ بن ابی جہل تھا۔ پیدل فوج کی کمان صفوان بن امیہ کے پاس تھی اور تیر اندازوں پر عبد اللہ بن ربیعہ مقرر ہوئے۔ جھنڈا عبد الدار کی ایک چھوٹی سی جماعت کے ہاتھ میں تھا۔ یہ منصب انہیں اسی وقت سے حاصل تھا جب بنو عبد مناف نے قُصی سے وراثت میں پائے ہوئے مناصب کو باہم تقسیم کیا تھا۔ جس کی تفصیل ابتدائے کتاب میں گزر چکی ہے۔ پھر باپ دادا سے جو دستور چلا آرہا تھا اس کے پیش ِ نظر کوئی شخص اس منصب کے بارے میں ان سے نزاع بھی نہیں کرسکتا تھا، لیکن سپہ سالار ابو سفیان نے انہیں یاد دلایا کہ جنگ ِ بدر میں ان کا پرچم بردار نضر بن حارث گرفتار ہوا تو قریش کو کن حالات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اس بات کو یاد دلانے کے ساتھ ہی ان کا غصہ بھڑکانے کے لیے کہا : اے بنی عبد الدار ! بدر کے روز آپ لوگوں نے ہمار اجھنڈا لے رکھا تھا تو ہمیں جن حالات سے دوچار ہونا پڑا وہ آپ نے دیکھ ہی لیا ہے۔ درحقیقت فوج پر جھنڈے ہی کے جانب سے زد پڑتی ہے۔ جب جھنڈا گرپڑتا ہے تو فوج کے قدم اکھڑ جاتے ہیں، پس اب کی بار آپ لوگ یا تو ہمارا جھنڈا ٹھیک طور سے سنبھالیں یا ہمارے اور جھنڈے کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ ہم اس کا انتظام خود کرلیں گے۔ اِ س گفتگو سے ابوسفیان کا جو مقصد تھا اس میں وہ کامیاب رہا۔ اس کی بات سن کر بنی عبد الدار کو سخت تاؤ آیا۔ انہوں نے دھمکیاں دیں۔معلوم ہوتا تھا کہ اس پر پل پڑیں گے۔ کہنے لگے : ہم اپنا جھنڈا تمہیں دیں گے ؟ کل جب ٹکر ہوگی تو دیکھ لینا ہم کیا کرتے ہیں۔ اور واقعی جب جنگ شروع ہوئی تو وہ نہایت پامردی کے ساتھ جمے رہے، یہاں تک کہ ان کا ایک ایک آدمی لقمۂ اجل بن گیا۔ قریش کی سیاسی چال بازی: آغاز جنگ سے کچھ پہلے قریش نے مسلمانوں کی صف میں پھوٹ ڈالنے اور نزاع پیدا کر نے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے ابو سفیان نے انصار کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ آپ لوگ ہمارے اور ہمارے چچیرے بھائی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بیچ سے ہٹ جائیں تو ہمار ارُخ بھی آپ کی طرف نہ ہوگا۔ کیونکہ ہمیں آپ لوگوں سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن جس ایمان کے آگے پہاڑ بھی نہیں ٹھہر سکتے اس کے آگے یہ چال کیونکر کامیاب ہوسکتی تھی۔ چنانچہ انصار نے اسے نہایت سخت
Flag Counter