Maktaba Wahhabi

1009 - 644
ادھر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ شیریں اور خوش ذائقہ پانی لائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا : اور دعائے خیر دی۔ [1] زخم کے اثر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز بیٹھے بیٹھے پڑھی۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھ ہی کر نماز ادا کی۔[2] ابو سفیان کی شماتت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دودو باتیں: مشرکین نے واپسی کی تیاری مکمل کرلی تو ابو سفیان جبل اُحد پر نمودار ہوا۔ اور بآواز بلند بو لا: کیا تم میں محمد ہیں ؟ لوگوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔اس نے پھر کہا : کیا تم میں ابو قحافہ کے بیٹے (ابوبکر ) ہیں؟ لوگوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے پھر سوال کیا : کیا تم میں عمر بن خطاب ہیں ؟ لوگوں نے اب کی مرتبہ بھی جواب نہ دیا ۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا جواب دینے سے منع فرمادیا تھا۔ ابو سفیان نے ان تین کے سوا کسی اور کے بارے میں نہ پوچھا۔ کیونکہ اسے اور اس کی قوم کو معلوم تھا کہ اسلام کا قیام ان ہی تینوں کے ذریعے ہے۔ بہرحال جب کوئی جواب نہ ملا تو اس نے کہا : چلو ان تینوں سے فرصت ہوئی۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے قابو ہوگئے۔ اور بولے: او اللہ کے دشمن ! جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں۔ اور ابھی اللہ نے تیری رسوائی کا سامان باقی رکھا ہے۔اس کے بعد ابو سفیان نے کہا: تمہارے مقتولین کا مُثلہ ہوا ہے۔ لیکن میں نے نہ اس کا حکم دیا تھا اور نہ اس کا براہی منایا ہے۔ پھر نعرہ لگا یا : اُعلُ ھُبَل۔ ھبل بلند ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے۔ صحابہ نے عرض کیا: کیا جواب دیں ؟ آپ نے فرمایا: کہو: ((اللّٰہ أعلی وأجل)) ’’اللہ اعلیٰ اور برتر ہے۔ ‘‘ پھر ابو سفیان نے نعرہ لگایا : لنا عزی ولا عزی لکم۔ ’’ہمارے لیے عُزیٰ ہے۔ اور تمہارے لیے عُزیٰ نہیں ۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے دریافت کیا : کیا جواب دیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہو: ((اللّٰہ مولانا ولا مولی لکم)) ’’اللہ ہمار امولیٰ ہے اور تمہاراکوئی مولیٰ نہیں ۔‘‘ اس کے بعد ابو سفیان نے کہا : کتنا اچھا کارنامہ رہا۔ آج کا دن جنگ بدر کے دن کا
Flag Counter