Maktaba Wahhabi

796 - 644
غم کا سال ابوطالب کی وفات: ابوطالب کا مرض بڑھتا گیا اور بالآخر وہ انتقال کر گئے۔ ان کی وفات شِعَب ابی طالب کی محصوری کے خاتمے کے چھ ماہ بعد رجب سنہ ۱۰ نبوی میں ہوئی۔[1] ایک قول یہ بھی ہے کہ انھوں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے صرف تین دن پہلے ماہ رمضان میں وفات پائی۔ صحیح بخاری میں حضرت مسیَّب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ وہاں ابوجہل بھی موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’چچا جان: آپ لااِلٰہ اِلَّا اللہ کہہ دیجیے۔ بس ایک کلمہ جس کے ذریعے میں اللہ کے پاس آپ کے لیے حجت پیش کر سکوں۔‘‘ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا: ’’ابوطالب! کیا عبدالمطلب کی ملت سے رُخ پھیر لو گے؟‘‘ پھر یہ دونوں برابر ان سے بات کرتے رہے یہاں تک کہ آخری بات جو ابوطالب نے لوگوں سے کہی یہ تھی کہ ‘‘عبدالمطلب کی ملت پر’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘میں جب تک آپ سے روک نہ دیا جاؤں آپ کے لیے دعائے مغفرت کرتا رہوں گا۔’’ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ﴾ (التوبہ 9133 ترجمہ: ‘‘نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اہل ایمان کے لیے درست نہیں کہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ اگرچہ وہ قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان پر واضح ہو چکا ہے کہ وہ لوگ جہنمی ہیں۔’’ اور یہ آیت بھی نازل ہوئی: ﴿ إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ ﴾[2](28: 56) ’’آپ جسے پسند کریں ہدایت نہیں دے سکتے۔‘‘
Flag Counter