Maktaba Wahhabi

723 - 644
بچپن ہی میں انتقال کر گئے،البتہ بچیوں میں سے ہر ایک نے اسلام کا زمانہ پایا مسلمان ہوئیں اور ہجرت کے شرف سے مشرف ہوئیں، لیکن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوا باقی سب کاانتقال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ہو گیا۔ حجرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رحلت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھہ ماہ بعد ہوئی۔[1] کعبہ کی تعمیر اور حجر اسود کے تنازعہ کا فیصلہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا پینتیسواں سال تھا کہ قریش نے نئے سرے سے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی۔وجہ یہ تھی کہ کعبہ صرف قد سے کچھ اونچی چہار دیواری کی شکل میں تھا، حضرت اسماعیل علیہ سلام کے زمانے ہی سے اس کی بلندی 9ہاتھ تھی اور اس پر چھت نہ تھی۔ اس کیفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ چوروں نے اس کے اندر رکھا ہوا خزانہ چرا لیا۔..........اس کے علاوہ اس کی تعمیر پر ایک طویل زمانہ گزر چکا تھا عمارت خستگی کا شکار ہو چکی تھی اور دیواریں پھٹ گئی تھیں۔ادھر اسی سال ایک زوردار سیلاب آیا جسکا رخ خانہ کعبہ کی جانب تھا اس کے نتیجے میں خانہ کعبہ کسی بھی لمحے ڈھے سکتا تھا۔اس لئے قریش مجبور ہو گئے کہ اسکا مرتبہ و مقام برقرار رکھنے کے لئے اسے ازسر نو تعمیر کریں۔ اس مرحلے پر قریش نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال رقم ہی استعمال کریں گے۔اسمیِں رنڈی کی اجرت، سود کی دولت اور کسی کا ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں ہونے دینگے۔ (نئی تعمیر کیلئے پرانی عمارت کو ڈھانا ضروری تھا) لیکن کسی کو ڈھانے کی جرت نہیں ہوتی تھی بلآخر ولید بن مغیرہ مخزومی نے ابتدا کی۔جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی آفت نہیں ٹوٹی تو باقی لوگوں نے بھی ڈھانا شروع کیااور جب قواعد ابراہیمی تک ڈھا چکے تو تعمیر کا آغآز کیا۔ تعمیر کے لئے الگ الگ ہر قبیلے کا حصہ مقرر تھااور ہر قبیلے نے علیحدہ علیحدہ پتھر کے ڈھیر لگا رکھے تھے۔تعمیر شروع ہوئی باقوم نامی ایک رومی معمار نگراں تھا۔جب عمارت حجر اسود تک بلند ہو چکی تو یہ جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا کی حجر اسود کو اس کی جگہ رکھنے کا شرف و امتیاز کسے حاصل ہو۔یہ جھگڑا چار پانچ دن تک جاری رہا اور رفتہ رفتہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ معلوم ہوتا تھا سر زمین حرم میں سخت خون خرابہ ہو جائیگا۔ لیکن ابو امیہ مخزومی نے یہ کہہ کر فیصلے کی ایک صورت پیدا کردی کہ مسجد حرام کے دروازے سے دوسرے دن جو سب سے پہلے داخل ہو اسے اپنے
Flag Counter