Maktaba Wahhabi

800 - 644
ابتدائی مسلمانوں کا صبروثبات اور اس کے اسباب و عوامل یہاں پہنچ کر گہری سوجھ بوجھ اور مضبوط دل و دماغ کا آدمی بھی حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور بڑے بڑے عقلاء دم بخود ہو کر پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کیا اسباب و عوامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کو اس قدر معجزانہ حد تک ثابت قدم رکھا؟ آخر مسلمانوں نے کس طرح ان بے پایاں مظالم پر صبر کیا جنہیں سُن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل لرز اٹھتا ہے۔ بار بار کھٹکنے اور دل کی تہوں سے ابھرنے والے اس سوال کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان اسباب و عوامل کی طرف ایک سرسری اشارہ کر دیا جائے۔ 1۔ ان میں سب سے پہلا اور اہم سبب اللہ کی ذاتِ واحد پر ایمان اور اس کی ٹھیک ٹھیک معرفت ہے کیونکہ کب ایمان کی بشاشت دلوں میں جانگزین ہو جاتی ہے تو وہ پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور اسی کا پلہ بھاری رہتا ہے اور جو شخص ایسے ایمانِ محکم اور یقینِ کامل سے بہرہ ور ہو وہ دُنیا کی مشکلات کو خواہ وہ جتنی بھی زیادہ ہوں اور جیسی بھی بھاری بھرکم، خطرناک اور سخت ہوں، اپنے ایمان کے بالمقابل اس کائی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا جو کسی بند توڑ اور قلعہ شکن سیلاب کی بالائی سطح پر جم جاتی ہے۔ اس لیے مومن اپنے ایمان کی حلاوت، یقین کی تازگی اور اعتقاد کی بشاشت کے سامنے ان مشکلات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا کیونکہ: ﴿فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الأَرْض﴾ (الرعد13:17) ’’جو جھاگ ہے وہ تو بے کار ہو کر اڑ جاتا ہے اور جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وہ زمین میں برقرار رہتی ہے‘‘ پھر اسی ایک سبب سے ایسے اسباب وجود میں آتے ہیں جو اِس صبروثبات کو قوت بخشتے ہیں مثلًا: 2۔ پرکشش قیادت: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جو امتِ اسلامیہ ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت کے سب سے بلند پایہ قائد و رہنما تھے ایسے جسمانی جمال، نفسانی کمال، کریمانہ اخلاق، باعظمت کردار اور شریفانہ عادات و اطوار سے بہرہ ور تھے کہ دل خود بخود آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی جانب کھنچے چلے جاتے تھے اور
Flag Counter