Maktaba Wahhabi

1227 - 644
اللہ کے دین میں فوج در فوج داخلہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا غزوۂ فتح مکہ ایک فیصلہ کن معرکہ تھا جس نے بُت پرستی کاکام تمام کردیا۔ اور سارے عرب کے لیے حق وباطل کی پہچان ثابت ہوا۔ اس کی وجہ سے ان کے شبہات جاتے رہے۔ اسی لیے اس کے بعد انہوں نے بڑی تیز رفتاری سے اسلام قبول کیا۔ حضرت عَمرو بن سَلمہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ ایک چشمے پر (آباد ) تھے ، جو لوگوں کی گذرگاہ تھا۔ ہمارے ہاں سے قافلہ گذرتے رہتے تھے۔ اور ہم ان سے پوچھتے رہتے تھے کہ لوگوں کا کیا حال ہے ؟ یہ آدمی …یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ____کا کیا حال ہے ؟ اور کیسا ہے ؟ لوگ کہتے : وہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے اسے پیغمبر بنایا ہے۔ اس کے پاس وحی بھیجی ہے۔ اللہ نے یہ اور یہ وحی کی ہے۔ میں یہ بات یاد کرلیتا تھا۔ گویا وہ میرے سینے میں چپک جاتی تھیں۔ اور عرب حلقۂ بگوش اسلام ہونے کے لیے فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے۔ کہتے تھے : اسے اور اس کی قوم کو (پنجہ آزمائی کے لیے ) چھوڑ دو۔ اگر وہ اپنی قوم پر غالب آگیا تو سچانبی ہے۔ چنانچہ جب فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا تو ہر قوم نے اپنے اسلام کے ساتھ (مدینہ کی جانب ) پیش رفت کی اور میرے والد بھی میری قوم کے اسلام کے ساتھ تشریف لے گئے۔ اور جب (خدمت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ) واپس آئے تو فرمایا : میں تمہارے پاس اللہ کی قسم ایک نبی ٔ برحق کے پاس سے آرہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فلاں نماز فلاں وقت پڑھو اور فلاں نماز فلاں وقت پڑھو۔ اور جب نماز کا وقت آجائے توتم میں سے ایک آدمی اذان کہے ، اور جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ امامت کر ے ۔[1] اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ فتح مکہ کا واقعہ حالات کو تبدیل کرنے میں ، اسلام کو قوت بخشنے میں ، اہلِ عرب کا موقف متعین کرانے میں اور اسلام کے سامنے انہیں سپر انداز کرنے میں کتنے گہرے اور دوررس اثرات رکھتا تھا۔ یہ کیفیت غزوہ تبوک کے بعد پختہ سے پختہ تر ہوگئی۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ان دوبرسوں ۔ ۹ ھ اور ۱۰ ھ میں مدینہ آنے والے وفود کا تانتا بندھا ہواتھا اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہورہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ اسلامی لشکر جو فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار سپاہ پر مشتمل تھا اس کی تعداد غزوۂ تبوک میں (جبکہ ابھی فتح مکہ پر پورا ایک سال بھی نہیں گذرا تھا ) اتنی بڑھ گئی کہ وہ تیس ہزار فوجیوں کے
Flag Counter