Maktaba Wahhabi

694 - 644
اسی سے ملتی جلتی ایک حرکت یہ بھی تھی کہ مشرکین، خرگوش کے ٹخنے کی ہڈی لٹکاتے تھے اور بعض دنوں، مہینوں،جانوروں، گھروں اور عورتوں کو منحوس سمجھتے تھے۔ بیماریوں کی چھوت کے قائل تھے اور روح کے اُلو بن جانے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ یعنی ان کا عقیدہ تھا کہ جب تک مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے، اس کو سکون نہیں ملتا اور اس کی روح اُلو بن کر بیابانوں میں گردش کرتی رہتی ہے اور "پیاس،پیاس" یا "مجھے پلاؤ،مجھے پلاؤ" کی صدا لگاتی رہتی ہے۔ جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو اسے راحت اور سکون مل جاتا ہے۔[1] دینِ ابراہیمی میں قریش کی بد عات یہ تھے اہل جاہلیت کے عقائد و اعمال ، اس کے ساتھ ہی ان کے اندر دینِ ابراہیمی کے کچھ باقیات بھی تھے۔ یعنی انہوں نے یہ دین پورے طور پر نہیں چھوڑا تھا۔ چنانچہ وہ بیت اللہ کی تعظیم اور اس کا طواف کرتے تھے۔ حج و عمرہ کرتے تھے، عرفات و مزدلفہ میں ٹرمتے تھے اور ہدی کے جانوروں کی قربانی کرتے تھے۔ البتہ انہوں نے اس دینِ ابراہیمی میں بہت سی بدعتیں ایجاد کر کے شامل کر دی تھیں۔ مثلا: قریش کی ایک بدعت یہ تھی کہ وہ کہتے تھے ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں ، حرم کے پاسبان، بیت اللہ کے والی اور مکہ کے باشندے ہیں، کوئی شخص ہمارا ہم مرتبہ نہیں اور نہ کسی کے حقوق ہمارے حقوق کے مساوی ہیں______ اسی بناپر یہ اپنا نام حُمس (بہادر اور گرم جوش) رکھتے تھے۔ لہذا ہمارے شایان شان نہیں کہ ہم حدود حرم سے باہر جائیں۔ چنانچہ حج کے دوران یہ لوگ عرفات نہیں جاتے تھے اور نہ وہاں سے اِفَاضَہ کرتے تھے بلکہ مزدلفہ ہی میں ٹھہر کر وہیں سے افاضہ کر لیتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے اس بدعت کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ﴾(البقرہ، 2: 199) ’’عنی "تم لوگ بھی وہیں سے اِفاضَہ کر و جہاں سے سارے لوگ افاضہ کرتے ہیں۔‘‘ [2] ان کی ایک بدعت یہ بھی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ حمس (قریش) کے لیے احرام کی حالت میں پنیر اور گھی بنانا درست نہیں اور نہ یہ درست ہے کہ بال والے گھر (یعنی کمبل کے خیمے)میں داخل
Flag Counter