Maktaba Wahhabi

958 - 644
فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ ﴾(۳: ۱۲ ،۱۳ ) ’’ان کافروں سے کہہ دو کہ عنقریب مغلوب کیے جاؤ گے اور جہنم کی طرف ہان کے جاؤ گے ، اور وہ برا ٹھکا نا ہے۔ جن دوگروہوں میں ٹکر ہوئی ان میں تمہارے لیے نشانی ہے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑرہاتھا اور دوسرا کا فرتھا، یہ ان کو آنکھوں دیکھنے میں اپنے سے دگنا دیکھ رہے تھے ، اور اللہ اپنی مدد کے ذریعے جس کی تائید چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس کے اندر يقيناً نظر والوں کے لیے عبرت ہے۔‘‘ بہر حال بنو قینقاع نے جو جواب دیا تھا اس کا مطلب صاف صاف اعلانِ جنگ تھا ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا غصہ پی لیا اور صبر کیا۔ مسلمانوں نے بھی صبر کیا اور آنے والے حالات کا انتظار کرنے لگے۔ ادھر اس نصیحت کے بعد یہود بنو قینقاع کی جرأت رندانہ اور بڑھ گئی ، چنانچہ تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ انہوں نے مدینہ میں بلوہ اور ہنگامہ بپا کردیا جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی قبر کھود لی اور اپنے اوپر زندگی کی راہ بندکر لی۔ ابن ہشام نے ابوعون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنو قینقاع کے بازار میں کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر (کسی ضرورت کے لیے ) ایک سنار کے پاس ، جو یہودی تھا ، بیٹھ گئی۔ یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار کردیا۔ اس پر اس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارا پچھلی طرف باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب وہ اٹھی اور بے پردہ ہوگئی تو یہودیوں نے قہقہہ لگا یا۔ اس پر اس عورت نے چیخ پکار مچائی جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اسے مار ڈالا۔ جوابا ً یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کرکے اسے مارڈالا۔ اس کے بعد مقتول مسلمان کے گھر والوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اور بنی قینقاع کے یہودیوں میں بلوہ ہو گیا۔[1] محاصرہ ، سپردگی اور جلاوطنی: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کا انتظام ابو لبابہ رضی اللہ عنہ بن عبد المنذر کو سونپا اور خود، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبد المطلب کے ہاتھ میں مسلمانوں کا
Flag Counter