Maktaba Wahhabi

1037 - 644
خیبر میں تشریف فرماتھے۔ اس طرح وہ پہلی بار ) خیبر ہی کے اندر خدمت نبوی میں حاضر ہوسکے تھے۔ پس ضروری ہے کہ غزوۂ ذات الرقاع غزوۂ خیبر کے بعد پیش آیا ہو۔ ۴ ھ کے ایک عرصے بعد غزوہ ذات الرقاع کے پیش آنے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ ذات الرقاع میں صلوٰۃ ِ خوف [1] پڑھی تھی اور صلوٰۃِ خوف پہلے پہل غزوہ عسفان میں پڑھی گئی۔ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ غزوۂ عسفان کا زمانہ غزوہ خندق کے بھی بعد کا ہے۔ جبکہ غزوہ خندق کا زمانہ ۵ ھ کے اخیر کا ہے۔ درحقیقت غزوہ عسفان سفرِ حدیبیہ کا ایک ضمنی واقعہ تھا۔ اور سفر ِ حدیبیہ ۶ ھ کے اخیر میں پیش آیا تھا جس سے واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی راہ لی تھی۔ اس لیے اس اعتبار سے بھی غزوۂ ذاتِ الرقاع کا زمانہ خیبر کے بعد ہی ثابت ہوتا ہے۔ ۷۔ غزوہ بدر دوم: اعراب کی شوکت توڑدینے اور بدوؤں کے شر سے مطمئن ہوجانے کے بعد مسلمانوں نے اپنے بڑے دشمن (قریش ) سے جنگ کی تیاری شروع کردی۔ کیونکہ سال تیزی سے ختم ہورہا تھا۔ اور احد کے موقع پر طے کیا ہوا وقت قریب آتا جارہا تھا۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فرض تھا کہ میدان کار زار میں ابو سفیان اور اس کی قوم سے دودوہاتھ کرنے کے لیے نکلیں اور جنگ کی چکی اس حکمت کے ساتھ چلائیں کہ جو فریق زیادہ ہدایت یافتہ اور پائیدار بقاء کا مستحق ہو حالات کا رُخ پوری طرح اس کے حق میں ہوجائے۔ چنانچہ شعبان ۴ ھ جنوری ۶۲۶ ء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کا انتظام حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو سونپ کرا س طے شدہ جنگ کے لیے بدر کا رُخ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ڈیڑھ ہزار کی جمعیت اور دس گھوڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کا عَلَم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیا اور بدر پہنچ کر مشرکین کے انتظار میں خیمہ زن ہوگئے۔ دوسری طرف ابو سفیان بھی پچاس سوار سمیت دوہزارمشرکین کی جمعیت لے کر روانہ ہوا۔ اور
Flag Counter