Maktaba Wahhabi

717 - 644
پھر ہم بنو سعدمیں اپنے گھروں کو آگئے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اللہ کی روئے زمین کا کوئی خطہ ہمارے علاقے سے زیادہ قحط زدہ تھا۔ لیکن ہماری واپسی کے بعد میری بکریاں چرنے جاتیں تو آسودہ حال اور دودھ سے بھرپور واپس آتیں۔ ہم دوہتے اور پیتے۔ جبکہ کسی اور انسان کو دودھ کا ایک قطرہ بھی نصیب نہ ہوتا۔ ان کے جانوروں کے تھنوں میں دودھ سرے سے رہتا ہی نہ تھا۔ حتیٰ کہ ہماری قوم کے شہری اپنے چرواہوں سے کہتے کہ کم بختو ! جانور وہیں چرانے لے جایا کرو جہاں ابو ذویب کی بیٹی کا چرواہا لے جاتا ہے…لیکن تب بھی ان کی بکریاں بھوکی واپس آتیں۔ ان کے اندر ایک قطرہ دودھ نہ رہتا، جبکہ میری بکریاں آسودہ اور دودھ سے بھر پور پلٹتیں۔ اس طرح ہم اللہ کی طرف سے مسلسل اضافے اور خیر کا مشاہدہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اس بچے کے دوسال پورے ہوگئے اور میں نے دودھ چھڑادیا۔ یہ بچہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں اس طرح بڑھ رہاتھا کہ دوسال پورے ہوتے ہوتے وہ کڑا اور گٹھیلا ہو چلا۔ اس کے بعد ہم اس بچے کو اس کی والدہ کے پاس لے گئے ، لیکن ہم اس کی جو برکت دیکھتے آئے تھے۔ اس کی وجہ سے ہماری انتہائی خواہش یہی تھی کہ وہ ہمارے پاس رہے۔ چنانچہ ہم نے اس کی ماں سے گفتگو کی۔ میں نے کہا : کیوں نہ آپ میرے بچے کو میرے پاس ہی رہنے دیں کہ ذرا مضبوط ہوجائے۔ کیونکہ مجھے اس کے متعلق مکہ کی وباء کا خطرہ ہے۔ غرض ہمارے مسلسل اصرار پر انھوں نے بچہ ہمیں واپس دے دیا۔ [1] واقعۂ شق صدر: اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدت رضاعت ختم ہونے کے بعد بھی بنو سعد ہی میں رہے یہاں تک کہ ولادت کے چوتھے یا پانچویں[2] سال شَقّ ِ صَدر (سینہ مبارک چاک کیے جانے) کا واقعہ پیش آیا۔ اس کی تفصیل حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ حضرت جبریل نے آپ کو پکڑ کر پٹخا اور سینہ چاک کر کے دل نکالا، پھر دل سے ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا: یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے، پھر دل کو طشت میں زمزم کے پانی سے دھویا اور پھر اسے جوڑکر اس کی جگہ لوٹا دیا۔ ادھر بچے دوڑ کر آپ کی ماں، یعنی دایہ کے پاس پہنچے
Flag Counter