Maktaba Wahhabi

991 - 644
جس سے شکست خوردہ مشرکین کو اس نئی تبدیلی کا علم ہوگیا۔ اور وہ بھی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ ادھر قبیلہ بنو حارث کی ایک عورت عمرہ بنت علقمہ نے لپک کر زمین پر پڑا ہوا مشرکین کا جھنڈا اٹھا لیا ، پھر کیا تھا ، بکھرے ہوئے مشرکین اس کے گرد سمٹنے لگے اور ایک نے دوسرے کو آواز دی ، جس کے نتیجے میں وہ مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہوگئے اور جم کر لڑائی شروع کردی۔ اب مسلمان آگے اور پیچھے دونوں طرف سے گھیر ے میں آچکے تھے۔ گویا چکی کے دوپاٹوں کے بیج میں پڑگئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پُر خطر فیصلہ اوردلیرانہ اقدام : اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف نو صحابہ رضی اللہ عنہ [1]کی ذرا سی نفری کے ہمراہ پیچھے [2]تشریف فرماتھے اور مسلمانوں کی ماردھاڑ اور مشرکین کے کھدیڑ ے جانے کا منظر دیکھ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دم اچانک خالد بن ولید کے شہسوار دکھائیپڑے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوہی راستے تھے ، یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نو رفقاء سمیت بھاگ کر کسی محفوظ جگہ چلے جاتے اور اپنے لشکر کو جو اب نرغے میں آیا ہی چاہتا تھا اس کی قسمت پر چھوڑ دیتے۔ یا اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے صحابہ کو بلاتے۔ اور ان کی معتد بہ تعداد اپنے پاس جمع کرکے ایک مضبوط محاذ تشکیل دیتے اور اس کے ذریعے مشرکین کا گھیرا توڑ کر اپنے لشکر کے لیے احد کی بلندی کی طرف جانے کا راستہ بناتے۔ آزمائش کے اس نازک ترین موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبقریت اور بے نظیر شجاعت نمایاں ہوئی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان بچاکر بھاگنے کے بجائے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جان بچانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کے شہسواروں کو دیکھتے ہی نہایت بلند آواز سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پکار ا: اللہ کے بند و ! ادھر ____! حالا نکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ یہ آواز مسلمانوں سے پہلے مشرکین تک پہنچ جائے گی۔ اور یہی ہوا بھی۔ چنانچہ یہ آواز سن کر مشرکین کو معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہیں موجود ہیں۔ لہٰذا ان کا ایک دستہ مسلمانوں سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ اور باقی شہسواروں
Flag Counter