Maktaba Wahhabi

703 - 644
ساری عرب عورتیں سوت کاتتی تھیں لیکن مشکل یہ تھی کہ سارامال ومتاع ہمیشہ لڑائیوں کی زد میں رہتا تھا۔ فقر اور بھوک کی وبا عام تھی اور لوگ ضروری کپڑوں اور لباس سے بھی بڑی حد تک محروم رہتے تھے۔ اخلاق : یہ تو اپنی جگہ مسلم ہے ہی کہ اہل جاہلیت میں خَسیس و رَذیل عادتیں اور وجدان وشعور اور عقلِ سلیم کے خلاف باتیں پائی جاتی تھیں۔ لیکن ان میں ایسے پسندیدہ اخلاقِ فاضلہ بھی تھے جنھیں دیکھ کر انسان دنگ اور ششدر رہ جاتا ہے۔ مثلاً: 1۔ کرم وسخاوت :…یہ اہل جاہلیت کا ایسا وصف تھا جس میں وہ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے تھے اور اس پر اس طرح فخر کرتے تھے کہ عرب کے آدھے اشعار اسی کی نذر ہوگئے ہیں۔ اس وصف کی بنیاد پر کسی نے خود اپنی تعریف کی ہے تو کسی نے کسی اور کی۔ حالت یہ تھی کہ سخت جاڑے اور بھوک کے زمانے میں کسی کے گھر کوئی مہمان آجاتا اور اس کے پاس اپنی اس ایک اونٹنی کے سوا کچھ نہ ہوتا جو اس کی اور اس کے کنبے کی زندگی کا واحد ذریعہ ہوتی تو بھی …ایسی سنگین حالت کے باوجود …اس پر سخاوت کا جوش غالب آجاتا اور وہ اٹھ کر اپنے مہمان کے لیے اپنی اونٹنی ذبح کر دیتا۔ ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ بڑی بڑی دیت اور مالی ذمہ داریاں اٹھا لیتے اور اس طرح انسانوں کو بربادی اور خون ریزی سے بچا کر دوسرے رئیسوں اور سرداروں کے مقابل فخر کرتے تھے۔ اسی کرم کا نتیجہ تھا کہ وہ شراب نوشی پر فخر کرتے تھے ، اس لیے نہیں کہ یہ بذاتِ خود کوئی فخر کی چیز تھی بلکہ اس لیے کہ یہ کرم وسخاوت کو آسان کردیتی تھی۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مال لٹانا انسانی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔ اس لیے یہ لوگ انگور کے درخت کو کرم اور انگور کی شراب کو بنت الکرم کہتے تھے۔ جاہلی اشعار کے دَوَاوِین پر نظر ڈالیے تو یہ مدح وفخر کا ایک اہم باب نظر آئے گا عنترہ بن شداد عبسی اپنے معلقہ میں کہتا ہے : لقد شربت من المدامۃ بعد مارکد الھواجربالمشوف المعلم بزجاجۃ صفراء ذات أسرۃ قرنت بأزھر بالشمال مفدم فإذا شربت فإنني مستھلک مالي ،وعرضي وافر لم یکلم وإذا صحوت فما أقصر عن ندی وکما علمت شمائلي وتکرمی ’’میں نے دوپہر کی تیزی رکنے کے بعد ایک زرد رنگ کے دھاری دار جام بلوریں سے جو بائیں جانب رکھی ہوئی تابناک اور منہ بند خُم کے ساتھ تھا ، نشان لگی ہوئی ْصاف شفاف شراب پی اور جب میں
Flag Counter