Maktaba Wahhabi

923 - 644
کی قسم! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر عتبہ کا سینہ سوج آیا ہے ، نہیں ہرگز نہیں۔ واللہ ! ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ عتبہ نے جو کچھ کہا ہے محض اس لیے کہا ہے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اور اس کے ساتھیوں کو اونٹ خور سمجھتا ہے اور خود عتبہ کا بیٹا بھی انہیں کے درمیان ہے اس لیے وہ تمہیں ان سے ڈراتا ہے۔‘‘ ۔ عتبہ کے صاحبزادے ابو حذیفہ قدیم الاسلام تھے اور ہجرت کر کے مدینہ تشریف لاچکے تھے۔ عتبہ کو پتا چلا کہ ابو جہل کہتا ہے۔ ’’اللہ کی قسم عتبہ کا سینہ سوج آیا ہے۔‘‘ تو بولا : ’’اس سرین پر خوشبو لگا کر بزدلی کا مظاہرہ کرنے والے کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس کا سینہ سوج آیا ہے میرا یا اس کا ؟ ‘‘ ادھر ابوجہل نے اس خوف سے کہ کہیں یہ معارضہ طاقتور نہ ہوجائے ، اس گفتگو کے بعد جھٹ عامر بن حضرمی کو ۔ جو سریہ عبد اللہ بن جحش کے مقتول عمرو بن حضرمی کا بھائی تھا ۔ بلا بھیجا اور کہا کہ یہ تمہارا حلیف ۔ عتبہ ۔ چاہتا ہے کہ لوگوں کو واپس لے جائے حالانکہ تم اپنا انتقام اپنی آنکھ سے دیکھ چکے ہو، لہٰذا اٹھو ! اور اپنی مظلومیت اور اپنے بھائی کے قتل کی دہائی دو۔ اس پر عامر اُٹھا اور سرین سے کپڑا اٹھا کر چیخا۔ واعمراہ، واعمراہ ، ہائے عمرو، ہائے عمرو۔ اس پر قوم گرم ہوگئی۔ ان کا معاملہ سنگین اور ان کا ارادہ ٔ جنگ پختہ ہوگیا اور عتبہ نے جس سوجھ بوجھ کی دعوت دی تھی وہ رائیگاں گئی۔ اس طرح ہوش پر جوش غالب آگیا اور یہ معارضہ بھی بے نتیجہ رہا۔ دونوں لشکر آمنے سامنے: بہر حال جب مشرکین کا لشکر نمودار ہوا اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کو دکھائی دینے لگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے اللہ! یہ قریش ہیں جو اپنے پورے غرور وتکبر کے ساتھ تیری مخالف کرتے ہوئے اور تیرے رسول ؐ کو جھٹلاتے ہوئے آگئے ہیں۔ اے اللہ! تیری مدد ____جس کا تو نے وعدہ کیا ہے۔ اے اللہ! آج انہیں اینٹھ کر رکھ دے۔‘‘ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ بن ربیعہ کو اس کے ایک سرخ اونٹ پر دیکھ کر فرمایا:’’اگر قوم میں کسی کے پاس خیر ہے تو سُرخ اونٹ والے کے پاس ہے۔ اگر لوگوں نے اس کی بات مان لی تو صحیح راہ پائیں گے۔‘‘ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی صفیں درست فرمائیں۔ صف کی درستگی کے
Flag Counter