Maktaba Wahhabi

1057 - 644
غزوہ بنو قریظہ جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے واپس تشریف لائے اسی روز ظہر کے وقت جبکہ آپ حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں غسل فرمارہے تھے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ اور فرمایا : کیا آپ نے ہتھیار رکھ دیئے حالانکہ ابھی فرشتوں نے ہتھیار نہیں رکھے۔ اور میں بھی قوم کا تعاقب کرکے بس واپس چلا آرہا ہوں۔ اُٹھئے ! اور اپنے رفقاء کو لے کر بنو قریظہ کا رخ کیجیے۔ میں آگے آگے جارہا ہوں۔ ان کے قلعوں میں زلزلہ برپا کروں گا ، اور ان کے دلوں میں رعب ودہشت ڈالوں گا۔ یہ کہہ کر حضرت جبریل صلی اللہ علیہ وسلم فرشتوں کے جلو میں روانہ ہوگئے۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے منادی کروائی کہ جوشخص سمع وطاعت پر قائم ہے وہ عصر کی نماز بنو قریظہ ہی میں پڑھے۔ اس کے بعد مدینے کا انتظام حضرت ابن ام مکتوم کو سونپا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جنگ کا پھریرا دے کر آگے روانہ فرمادیا۔ وہ بنو قریظہ کے قلعوں کے قریب پہنچے تو بنو قریظہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گالیوں کی بوچھاڑ کردی۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مہاجرین وانصار کے جلو میں روانہ ہوچکے تھے۔ آپ نے بنوقریظہ کے دیار میں پہنچ کر ’’انا‘‘ نامی ایک کنویں پر نزول فرمایا۔ عام مسلمانوں نے بھی لڑائی کا اعلان سن کر فوراً دیار ِ بنی قریظہ کا رُخ کیا۔ راستے میں عصر کی نماز کا وقت آگیا تو بعض نے کہا : ہم ۔ جیسا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے ۔ بنو قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھیں گے حتیٰ کہ بعض نے عصر کی نماز عشاء کے بعد پڑھی ، لیکن دوسرے صحابہ نے کہا: آپ کا مقصود یہ نہیں تھا بلکہ یہ تھا کہ ہم جلد ازجلد روانہ ہوجائیں۔ اس لیے انہوں نے راستے ہی میں نماز پڑھ لی البتہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ قضیہ پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی فریق کو سخت سُست نہیں کہا۔ بہرکیف مختلف ٹکڑیوں میں بٹ کر اسلامی لشکر دیار ِ بنو قریظہ میں پہنچا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ
Flag Counter