Maktaba Wahhabi

770 - 644
آہنی دیوار بنے ہوئے تھے، اس لئے یہی مفید سمجھا گیا کہ ابو طالب سے دودو باتیں ہو جائیں۔ ابو طالب کو قریش کی دھمکی: اس تجویز کے بعد سرداران قریش ابو طالب کے پاس حاضر ہوئے اور بولے: ’’ ابو طالب! آپ ہمارے اندر سن و شرف اور اعزاز کے مالک ہیں۔ہم نے آپ سے گزارش کی کہ اپنے بھتیجے کو روکئے۔لیکن آپ نے نہیں روکا۔آپ یاد رکھیں ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارے آباؤ اجداد کو گالیاں دی جائیں،ہماری عقل و فہم کو حماقت زدہ قرار دیا جائے اور ہمارے خداؤں کی عیب چینی کی جائے،آپ روک دیجئے ورنہ ہم آپ سے اور ان سے ایسی جنگ چھیڑ دینگے کہ ایک فریق کا صفایا ہو کر رہیگا۔‘‘ ابو طالب پر اس زوردار دھمکی کا بہت زیادہ اثر ہوا اور انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر کہا: ’’بھتیجے! تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے تھے اور ایسی ایسی باتیں کہہ کر گئے ہیں۔اب مجھ پر اور خود پر رحم کرو اور اس معاملے پر مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جو میرے بس سے باہر ہے۔‘‘ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی آپ کا ساتھ چھوڑ دینگے، اور وہ آپ کی مدد سے کمزور پڑ گئے ہیں۔ اس لئے فرمایا: ’’ چچا جان! خدا کی قسم! اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں کہ میں اس کام کو اس حد تک پہنچائے بغیر چھوڑ دوں کہ یا تو اللہ اسے غالب کر دے یا میں اسی راہ میں فنا ہو جاؤں تو نہیں چھوڑ سکتا۔؏؏ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے اور اٹھ گئے،جب واپس ہونے لگے تو ابو طالب نے پکارا اور سامنے تشریف لائے تو کہا۔’’بھتیجے! جاؤ جو چاہے کہو،خدا کی قسم میں تمہیں کبھی بھی کسی بھی وجہ سے چھوڑ نہیں سکتا۔‘‘[1] اور یہ اشعار کہے۔ وََاللّٰه لَن یَّصِلُو اِلَیکَ بِجَمعِھِم حَتَّیٰ اَوسَدَ فِی التُّرَابِ دَفِینَا فَاصدَعَ بِاَمرِکَ مَا عَلَیکَ غَضَاضَۃُ وَابشِر وَقَرَّ بذاک منک عیونا [2] ترجمہ: بخدا وہ لوگ تمہارے پاس اپنی جمعیت سمیت بھی ہرگز نہیں پہنچ سکتے۔ یہاں تک کہ میں
Flag Counter