Maktaba Wahhabi

967 - 644
اس کے بعد مدینہ واپس تشریف لائے۔ کسی قسم کی لڑائی سے سابقہ پیش نہ آیا۔[1] ۸۔ سَرِیہ زید بن حارثہ: جنگ احد سے پہلے یہ مسلمانوں کی یہ آخری اور کامیاب ترین مہم تھی جو جمادی الآخر ۳ ھ میں پیش آئی۔ واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ قریش جنگ بدر کے بعد قلق واضطراب میں مبتلا تو تھے ہی مگر جب گرمی کا موسم آگیا اور ملک شام کے تجارتی سفر کا وقت آن پہنچا توانہیں ایک اور فکر دامن گیر ہوئی۔ اس کی وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ صفوان بن امیہ نے …جسے قریش کی طرف سے اس سال ملکِ شام جانے والے تجارتی قافلے کا میرکارواں منتخب کیاگیا تھا …قریش سے کہا : ’’محمد اور اس کے ساتھیوں نے ہماری تجارتی شاہراہ ہمارے لیے پُر صعوبت بنادی ہے ، سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم اس کے ساتھیوں سے کیسے نمٹیں۔ وہ ساحل چھوڑ کر ہٹتے ہی نہیں اور باشندگانِ ساحل نے ان سے مصالحت کرلی ہے۔ عام لوگ بھی انہیں کے ساتھ ہوگئے ہیں۔ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کون سا راستہ اختیار کریں ؟ اگر ہم گھروں ہی میں بیٹھ رہیں تو اپنا اصل مال بھی کھا جائیں گے اور کچھ باقی نہ بچے گا ، کیونکہ مکے میں ہماری زندگی کا دار ومدار اس پر ہے کہ گرمی میں شام اور جاڑے میں حبشہ سے تجارت کریں۔‘‘ صفوان کے اس سوال کے بعد اس موضوع پر غور وخوض شروع ہوگیا۔ آخر اسود بن عبد المطلب نے صفوان سے کہا:’’تم ساحل کا راستہ چھوڑ کر عراق کے راستے سفر کرو۔‘‘ واضح رہے کہ یہ راستہ بہت لمبا ہے۔ نجد سے ہوکر شام جاتا ہے اور مدینہ کے مشرق میں خاصے فاصلے سے گزرتا ہے۔ قریش اس راستے سے بالکل نا واقف تھے اس لیے اسود بن عبد المطلب نے صفوان کو مشورہ دیا کہ وہ فرات بن حیان کو____جو قبیلہ بکر بن وائل سے تعلق رکھتا تھا ____راستہ بتانے کے لیے راہنما رکھ لے۔ وہ اس سفر میں اس کی رہنمائی کردے گا۔ اس انتظام کے بعد قریش کا کارواں صفوان بن امیہ کی قیادت میں نئے راستے سے روانہ
Flag Counter