Maktaba Wahhabi

946 - 644
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داماد ابو العاص کو بھی اس شرط پر بلا فدیہ چھو ڑ دیا کہ وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی راہ نہ روکیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ابو العاص کے فدیے میں کچھ مال بھیجا تھا جس میں ایک ہار بھی تھا۔ یہ ہا ر درحقیقت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا اور جب انہوں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ابو العاص کے پا س رخصت کیا تھا تو یہ ہار انہیں دے دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی رِقت طاری ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اجازت چاہی کہ ابوالعاص کو چھوڑ دیں۔ صحابہ نے اسے بسرو چشم قبول کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو لعاص کو اس شرط پر چھوڑ دیا کہ وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی راہ چھوڑ دیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو العاص نے ان کا راستہ چھوڑ دیا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ہجرت فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ اور ایک انصاری صحابی کو بھیج دیا کہ تم دونوں بطن یا جج میں رہنا۔ جب زینب رضی اللہ عنہا تمہارے پاس سے گزریں تو ساتھ ہو لینا۔ یہ دونوں حضرات تشریف لے گئے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے کر مدینہ واپس آئے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی ہجرت کا واقعہ بڑا طویل اور المناک ہے۔ قیدیوں میں سہیل بن عمرو بھی تھا جو بڑا زبان آور خطیب تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :’’اے اللہ کے رسول! سہیل بن عمرو کے اگلے دو دانت تڑوادیجیے ا س کی زبان لپٹ جایا کرے گی اور وہ کسی جگہ خطیب بن کر آپ کے خلاف کبھی کھڑا نہ ہو سکے گا۔‘‘ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ گزارش مسترد کردی کیونکہ یہ مثلے کے ضمن میں آتا ہے جس پر قیامت کے روز اللہ کی طرف سے پکڑ کا خطرہ تھا۔ حضرت سعد بن نعمان رضی اللہ عنہ عمرہ کرنے کے لیے نکلے تو انہیں ابو سفیان نے قید کر لیا۔ ابو سفیان کا بیٹا عمرو بھی جنگ ِ بدر کے قیدیوں میں تھا۔ چنانچہ عمرو کوابو سفیان کے حوالے کردیا گیا اور اس نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ قرآن کا تبصر ہ: اسی غزوے کے تعلق سے سورۂ انفال نازل ہوئی جو درحقیقت اس غزوے پر ایک الٰہی تبصرہ ہے …گر یہ تعبیر صحیح ہو …اور یہ تبصرہ بادشاہوں اور کمانڈروں وغیرہ کے فاتحانہ تبصروں سے بالکل ہی جدا گانہ ہے۔ اس تبصرے کی چند باتیں مختصراً یہ ہیں :
Flag Counter