Maktaba Wahhabi

1094 - 644
اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: لات کی شرمگاہ کا لٹکتا ہوا چمڑا چوس۔ ہم حضور کو چھوڑ کر بھاگیں گے ؟ عروہ نے کہا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا : ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس نے حضرت ابو بکر کو مخاطب کرکے کہا : دیکھو اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایسی بات نہ ہوتی کہ تم نے مجھ پر ایک احسان کیا تھا اور میں نے اس کا بدلہ نہیں دیا ہے ، تو میں يقيناً تمہاری اس بات کا جواب دیتا۔ اس کے بعد عروہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا۔ وہ جب گفتگو کرتا تو آپ کی ڈاڑھی پکڑ لیتا۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے پاس ہی کھڑے تھے۔ ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خُود ، عروہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی پر ہاتھ بڑھاتا تو وہ تلوار کے دستے سے اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے کہ اپنا ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے پرے رکھ۔ آخر عروہ نے اپناسر اٹھایا ، اور بولا: یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں۔ اس پر اس نے کہا: ____او ___بدعہد ____! کیا میں تیری بدعہدی کے سلسلے میں دوڑ دھوپ نہیں کررہاہوں ؟ واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ جاہلیت میں حضرت مغیرہ کچھ لوگوں کے ساتھ تھے۔ پھر انہیں قتل کرکے ان کا مال لے بھاگے تھے۔ اور آکر مسلمان ہوگئے تھے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں اسلام تو قبول کرلیتا ہوں ، لیکن مال سے میرا کوئی واسطہ نہیں (اس معاملے میں عروہ کے دوڑدھوپ کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مغیرہ اس کے بھتیجے تھے ) اس کے بعد عروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام کے تعلق ِ خاطر کا منظر دیکھنے لگا۔ پھر اپنے رفقاء کے پاس واپس آیا اور بولا : اے قوم ! واللہ میں قیصر وکسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے پاس جاچکا ہوں۔ واللہ میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اُس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد کے ساتھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! وہ کھنکار بھی تھوکتے تھے تو کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ پر پڑتا تھا۔ اور وہ شخص اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا تھا۔ اور جب وہ کوئی حکم دیتے تھے تواس کی بجاآوری کے لیے سب دوڑ پڑتے تھے۔ اور جب وضو کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ اس کے وضو کے پانی کے لیے لوگ لڑپڑیں گے۔ اور جب کوئی بات بولتے تھے تو سب اپنی آوازیں پست کرلیتے تھے۔ اور فرطِ تعظیم کے سبب انہیں بھرپورنظر نہ دیکھتے تھے۔ اور انہوں نے تم پر ایک اچھی تجویز پیش کی ہے۔ لہٰذااسے قبول کرلو۔ وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے روکے : جب قریش کے پُر جوش اور جنگ بازنوجوان نے دیکھا کہ ان کے سر برآوردہ حضرات صلح کے جو یا ہیں تو انہوں نے صلح میں ایک رخنہ اندازی کا پروگرام بنایا۔ اور یہ طے کیا کہ رات میں یہاں سے
Flag Counter