Maktaba Wahhabi

793 - 644
ابو طالب کی خدمت میں قریش کا آخری وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعد پھر حسب معمول دعوت و تبلیغ کا کام شروع کر دیا اور اب مشرکین نے اگرچہ بائیکاٹ ختم کردیا تھا لیکن وہ بھی حسب معمول مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے اور اللہ کی راہ سے روکنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔اور جہاں تک ابو طالب کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنی دیرینہ روایت کے مطابق پوری جاں سپاری کے ساتھ اپنے بھتیجے کی حمایت و حفاظت میں لگے ہوئے تھے لیکن اب ان کی عمر اسی سال سے متجاوز ہو چلی تھی۔کئی سال سے پے درپے سنگین آلام و حوادث نے اور خصوصاًمحصوری نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔انکے قویٰ مضمحل ہو گئے تھے اور کمر ٹوٹ چکی تھی،چنانچہ گھاٹی سے نکلنے کے چند مہینے گزرے تھے کہ انہیں سخت بیماری نے آن پکڑا۔اس موقع پر مشرکین نے سوچا اگر ابو طالب کا انتقال ہو گیا اور اس کے بعد ہم نے اس کے بھتیجے پر کوئی زیادتی کی تو بڑی بدنامی ہوگی،اس لئے ابوطالب کے سامنے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معاملہ طر کر لینا چاہیے۔اس سلسلے میں بعض ایسی رعایتیں بھی دینے کو تیار ہو گئے جس پر اب تک راضی نہ تھے۔چنانچہ ان کا ایک وفد ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ ان کا آخری وفد تھا۔ ابن اسحٰق وغیرہ کا بیان ہے کہ جب ابو طالب بیمار پر گئے اور قریش کو معلوم ہوا کہ ان کی حالت غیر ہوتی جا رہی ہے تو انہوں نے آپس میں کہا کہ دیکھو حمزہ اور عمر اب مسلمان ہو چکے ہیں اور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین قریش کے ہر قبیلے میں پھیل چکا ہے اس لئے چلو ابو طالب کے پاس چلین کہ وہ اپنے بھتیجے کو کسی بات کا پابند کرین اور ہم سے بھی انکے متعلق عہد لے لیں کیونکہ واللہ ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ بڈھا مر گیا اور محمّد کے ساتھ کوئی گڑبڑ ہو گئی تو عرب ہمیں طعنہ دینگے اور کہیں گے کہ انہوں نے محمّد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو چھوڑے رکھا (اور اس کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت نہ کی) لیکن جب اسکا چچا مر گیا تو اس پر چڑھ دوڑے۔
Flag Counter