Maktaba Wahhabi

983 - 644
اور کبھی اپنی قوم کو لڑائی کا جوش دلاتے ہوئے یوں کہتیں : إن تقبلوا نعانق ونفرش النمارق أو تدبروا نفارق فراق غیر وامق ’’اگر پیش قدمی کرو گے تو ہم گلے لگائیں گی۔ اور قالینیں بچھائیں گی۔ اور اگر پیچھے ہٹو گے تو روٹھ جائیں گی اور الگ ہوجائیں گی۔ ‘‘ جنگ کا پہلا ایندھن: اس کے بعددونوں فریق بالکل آمنے سامنے اور قریب آگئے۔ اور لڑائی کا مرحلہ شروع ہوگیا۔ جنگ کا پہلا ایندھن مشرکین کا علمبردارطلحہ بن ابی طلحہ عبدری بنا۔ یہ شخص قریش کا نہایت بہادر شہسوار تھا۔ اسے مسلمان کبش الکتیبہ (لشکر کا مینڈھا ) کہتے تھے۔ یہ اونٹ پر سوار ہوکر نکلا اور مُبارزت کی دعوت دی ، اس کی حدسے بڑی ہوئی شجاعت کے سبب عام صحابہ مقابلے سے کترا گئے۔ لیکن حضرت زبیر آگے بڑھے اور ایک لمحہ کی مہلت دیئے بغیر شیر کی طرح جست لگا کر اونٹ پر جاچڑھے۔ پھر اسے اپنی گرفت میں لے کر زمین پر کود گئے اور تلوار سے ذبح کردیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ولولہ انگیز منظر دیکھا تو فرطِ مسرت سے نعر ۂ تکبیر بلند کیا۔ مسلمانوں نے بھی نعرۂ تکبیر لگایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی تعریف کی اور فرمایا : ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے۔ اور میرے حواری زبیر ہیں۔[1] معرکہ کا مرکزِ ثقل اور علمبرداروں کا صفایا: اس کے بعد ہر طرف جنگ کے شُعلے بھڑ ک اُٹھے۔ اور پورے میدان میں پُر زور مار دھاڑ شروع ہوگئی۔ مشرکین کا پرچم معرکے کا مرکزِ ثقل تھا۔ بنو عبد الدار نے اپنے کمانڈر طلحہ بن ابی طلحہ کے قتل کے بعد یکے بعد دیگرے پرچم سنبھالا۔ لیکن سب کے سب مارے گئے۔ سب سے پہلے طلحہ کے بھائی عثمان بن ابی طلحہ نے پرچم اٹھایا اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا : إن علی أہل اللواء حقًا أن تخضب الصعدۃ أو تندقا ’’پرچم والوں کا فرض ہے کہ نیزہ (خون سے ) رنگین ہوجائے یا ٹوٹ جائے۔‘‘ اس شخص پر حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے حملہ کیا اور اس کے کندھے پر ایسی تلوار ماری کہ وہ ہاتھ سمیت کندھے کو کاٹتی اور جسم کو چیرتی ہوئی ناف تک جاپہنچی، یہاں تک
Flag Counter