Maktaba Wahhabi

1162 - 644
یمنی بانا میرے ہاتھ میں چپک کررہ گیا۔[1] ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ مُوتہ ہی کے روز جبکہ ابھی میدان جنگ سے کسی قسم کی اطلاع نہیں آئی تھی وحی کی بناء پر فرمایا کہ جھنڈا زید نے لیا ، اور وہ شہید کردیے گئے۔ پھر جعفر نے لیا ، وہ بھی شہید کردیے گئے، پھر ابن ِ رواحہ نے لیا، اور وہ بھی شہید کردیے گئے ۔ اس دوران آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں ۔یہاں تک کہ جھنڈا اللہ کی ایک تلوار نے لیا۔ (اور ایسی جنگ لڑی کہ ) اللہ نے ان پر فتح عطاکی۔[2] خاتمہ ٔجنگ: انتہائی شجاعت وبسالت اور زبردست جاں بازی وجاں سپاری کے باوجود یہ بات انتہائی تعجب انگیز تھی کہ مسلمانوں کا یہ چھوٹا سا لشکر رُومیوں کے اس لشکر ِ جرار کی طوفانی لہروں کے سامنے ڈٹا رہ جائے۔ لہٰذا اس نازک مرحلے میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے جس میں وہ خود کود پڑے تھے ، اپنی مہارت اور کمال ہنرمندی کا مظاہرہ کیا۔ روایات میں بڑا اختلاف ہے کہ اس معرکے کا آخری انجام کیا ہوا۔ تمام روایات پر نظر ڈالنے سے صورت حال یہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کے پہلے روز حضرت خالد بن ولیددن بھر رومیوں کے مد مقابل ڈٹے رہے۔ لیکن وہ ایک ایسی جنگی چال کی ضرورت محسوس کررہے تھے جس کے ذریعہ رومیوں کو مرعوب کر کے اتنی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو پیچھے ہٹالیں کہ رومیوں کو تعاقب کی ہمت نہ ہو۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے اور رومیوں نے تعاقب شروع کردیا ، تو مسلمانوں کو ان کے پنجے سے بچانا سخت مشکل ہوگا۔ چنانچہ جب دوسرے دن صبح ہوئی تو انہوں نے لشکر کی ہیئت اور وضع تبدیل کردی اور اس کی ایک نئی ترتیب قائم کی۔ مقدمہ (اگلی لائن ) کو ساقہ (پچھلی لائن )اور ساقہ کو مقدمہ کی جگہ رکھ دیا۔ اور میمنہ کو مَیْسَرَہ اور میسرہ کو میمنہ سے بدل دیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر دشمن چونک گیا اور کہنے لگا کہ انہیں کمک پہنچ گئی ہے۔ غرض رومی ابتداہی میں مرعوب ہوگئے۔ ادھر جب دونوں لشکرکا آمنا سامنا ہوا اور کچھ دیر تک جھڑپ ہوچکی تو حضرت خالد بن ولید نے اپنے لشکر کا نظام محفوظ رکھتے ہوئے مسلمانوں کوتھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹانا شروع کیا لیکن رومیوں نے اس خوف سے ان کا پیچھا نہ کیا کہ مسلمان دھوکا دے رہے ہیں اور کوئی چال چل کر انہیں صحراکی پہنائیوں میں پھینک دینا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن اپنے علاقہ میں واپس چلاگیا اور مسلمانوں کے
Flag Counter