Maktaba Wahhabi

741 - 644
کا خاتمہ یکساں قسم کے بڑے پُرکشش الفاظ پر ہوتا تھا اور ان میں بڑی سکون بخش اور جاذبِ قلب نغمگی ہوتی تھی جو اس پُرسکون اور رقت آمیز فضا کے عین مطابق ہوتی تھی۔ پھر ان آیتوں میں تزکیہ نفس کی خوبیاں اور آلائش دنیا میں لت پت ہونے کی برائیاں بیان کی جاتی تھیں اور جنت و جہنم کا نقشہ اس طرح کھینچا جاتا تھا کہ گویا وہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔ یہ آیتیں اہل ایمان کو اس وقت کے انسانی معاشرے سے بالکل الگ ایک دوسری ہی فضا کی سیر کراتی تھیں۔ نماز: ابتداءً جو کچھ نازل ہوا اسی میں نماز کا حکم تھا۔ مُقَاتِلْ بن سلیمان کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ابتدائے اسلام میں دو رکعت صبح اور دو رکعت شام کی نماز فرض کی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ﴾(الغافر،30: 55) ’’صبح اور شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔‘‘ ابنِ حجر کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرم رضی اللہ عنہم واقعۂ معراج سے پہلے قطعی طور پر نماز پڑھتے تھے، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ نماز پنجگانہ سے پہلے کوئی نماز فرض تھی یا نہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے پہلے ایک ایک نماز فرض تھی۔ حارث رضی اللہ عنہ بن اُسامہ نے ابنِ لَیْعَہ کے طریق سے موصولاً حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتداءً جب وحی آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کا طریقہ سکھایا۔ جب وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چُلو پانی لیکر شرمگاہ پر چھینٹا مارا۔ ابنِ ماجہ نے بھی اس مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ براء رضی اللہ عنہ بن عازب اور ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ یہ (نماز) اولین فرائض میں سے تھی۔ [1] ابن ہشام کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نماز کے وقت گھاٹیوں میں چلے جاتے تھے اور اپنی قوم سے چُھپ کر نماز پڑھتے تھے۔ ایک بار ابو طالب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ پوچھا اور حقیقیت معلوم ہوئی تو کہا کہ اس پر برقرار رہیں۔[2]
Flag Counter