Maktaba Wahhabi

732 - 644
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تفصیلات سن کر کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اِس اُمت کے نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہی ناموسِ اکبر آیا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تھا۔[1] وحی کی بندش: رہی یہ بات کہ وحی کتنے دنوں تک بند رہی تو اس سلسلے میں ابن سعد نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ بندش چند دنوں کے لیے تھی اور سارے پہلوؤں پر نظر ڈالنے کے بعد یہی بات راجح بلکہ یقینی معلوم ہوتی ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ وحی کی بندش تین سال یا ڈھائی سال تک رہی تو یہ قطعا صحیح نہیں۔ البتہ یہاں دلائل پر بحث کی گنجائش نہیں۔ [2] وحی کی اس بندش کے عرصے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم حزین و غمگین رہے اور آپ پر حیرت و استعجاب طاری رہا۔ چنانچہ صحیح بخاری کتاب التعبیر کی روایت ہے کہ: ’’وحی بند ہو گئی جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر غمگین ہوئے کہ کئی بار بلند و بالا پہاڑ کی چوٹیوں پر تشریف لے گئے کہ وہاں سے لڑھک جائیں لیکن جب کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے کہ اپنے آپ کو لڑھکا لیں تو حضرت جبریل علیہ السلام نمودار ہوتے اور فرماتے: ’’اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ کے رسول حق ہیں۔‘‘ اور اس کی وجہ سے آپ کا اضطراب تھم جاتا۔ نفس کو قرار آجاتا اور آپ واپس آجاتے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی بندش طول پکڑ جاتی تو آپ پھر اسی جیسے کام کے لیے نکلتے لیکن جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے تو حضرت جبریل علیہ السلام نمودار ہو کر پھر وہی بات دُہراتے۔ [3] جبریل علیہ السلام دوبارہ وحی لاتے ہیں: حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں کہ (یعنی وحی کی چند روز بندش) اس لیے تھی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو خوف طاری ہو گیا تھا وہ رخصت ہو جائے اور دوبارہ وحی کی آمد کا شوق و انتظار پیدا ہو جائے [4]۔ چنانچہ جب حیرت کے سائے سُکڑ گئے، حقیقت کے نقوش پختہ ہو گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدائے بزرگ و برتر کے نبی ہو چکے ہیں
Flag Counter