Maktaba Wahhabi

860 - 644
ادھر محاصرین وقت صفر کا انتظار کررہے تھے لیکن اس سے ذرا پہلے انہیں اپنی ناکامی ونامرادی کا علم ہوگیا۔ ہوا یہ کہ ان کے پاس ایک غیر متعلق شخص آیا اورانہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر دیکھ کر پوچھا کہ آپ لوگ کس چیز کا انتظار کررہے ہیں ؟ انہوں نے کہا: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کا۔اس نے کہا : آپ لوگ ناکام ونامراد ہوئے۔ اللہ کی قسم ! محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تو آپ لوگوں کے پاس سے گزرے اور آپ کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے اپنے کام کو گئے۔ انہوں نے کہا :واللہ! ہم نے تو انہیں نہیں دیکھا اور اس کے بعد اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھ پڑے۔ لیکن پھر دروازے کی دراز سے جھانک کر دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نظر آئے۔ کہنے لگے :اللہ کی قسم ! یہ تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)سوئے پڑے ہیں۔ ان کے اوپر ان کی چادر موجود ہے۔ چنانچہ یہ لوگ صبح تک وہیں ڈٹے رہے۔ ادھر صبح ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بستر سے اٹھے تو مشرکین کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا ں ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : مجھے معلوم نہیں۔[1] گھر سے غار تک: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۲۷ ؍ صفر ۱۴ نبوت مطابق ۱۲ ۔ ۱۳ ستمبر ۶۲۲ ء[2]کی درمیانی رات اپنے مکان سے نکل کر جان ومال کے سلسلے میں اپنے سب سے قابل اعتماد ساتھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے تھے اور وہاں سے پچھواڑے کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے باہر کی راہ لی تھی تاکہ مکہ سے جلد از جلد، یعنی طلوع فجر سے پہلے پہلے باہر نکل جائیں۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ قریش پوری جانفشانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں لگ جائیں گے اور جس راستے پر اول و ہلہ میں نظر اٹھے گی وہ مدینہ کا کاروانی راستہ ہوگا جو شمال کے رخ پر جاتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ راستہ اختیار کیا جو اس کے بالکل الٹ تھا۔ یعنی یمن جانے والا راستہ جو مکہ کے جنوب میں واقع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس راستے پر کوئی پانچ میل
Flag Counter