Maktaba Wahhabi

862 - 644
تاریکی گہری ہوجاتی تو اس کی خبر لے کر غار میں پہنچ جاتے۔ ادھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فُہَیْرَہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو بکریاں لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے۔ اس طرح دونوں حضرات رات کو آسودہ ہوکر دودھ پی لیتے۔ پھر صبح تڑکے ہی عامر بن فُہیرہ بکریاں ہانک کر چل دیتے۔ تینوں رات انہوں نے یہی کیا۔[1] (مزید یہ کہ ) عامر بن فہیرہ ، حضرت عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مکہ جانے کے بعد انہیں کے نشانات قدم پر بکریاں ہانکتے تھے تاکہ نشانات مٹ جائیں۔[2] قریش کی تگ و دَو: ادھر قریش کا یہ حال تھا کہ جب منصوبۂ قتل کی رات گزر گئی اور صبح کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں تو ان پر گویا جنون طاری ہوگیا۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنا غصہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اتارا آپ کو گھسیٹ کر خانہ کعبہ لے گئے اور ایک گھڑی زیر حراست رکھا کہ ممکن ہے ان دونوں کی خبر لگ جائے۔[3]لیکن جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ حاصل نہ ہوا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ برآمد ہوئیں۔ ان سے پوچھا :تمہارے ابا کہاں ہیں ؟ انہوں نے کہا: واللہ! مجھے معلوم نہیں کہ میرے ابا کہا ں ہیں۔ اس پر کمبخت خبیث ابوجہل نے ہاتھ اٹھا کر ان کے رخسار پر اس زور کا تھپڑ مارا کہ ان کے کان کی بالی گرگئی۔[4] اس کے بعد قریش نے ایک ہنگامی اجلاس کر کے یہ طے کیا کہ ان دونوں کو گرفتار کرنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل کام میں لائے جائیں۔ چنانچہ مکے سے نکلنے والے تمام راستوں پر خواہ وہ کسی بھی سمت جارہا ہو نہایت کڑا مسلح پہرہ بٹھا دیا گیا۔ اسی طرح یہ اعلان عام بھی کیا گیا کہ جوکوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یا ان میں سے کسی ایک کو زندہ یامردہ حاضر کرے گا اسے ہر ایک کے بدلے سو اونٹوں کا گرانقدر انعام دیا جائے گا۔ [5]اس اعلان کے نتیجے میں سوار اور پیادے اور نشانات ِ قدم کے ماہر کھوجی نہایت سرگرمی سے تلاش میں لگ گئے اور پہاڑوں ، وادیوں اور نشیب وفراز میں ہر طرف بکھر گئے لیکن نتیجہ اور حاصل کچھ نہ رہا۔ تلاش کرنے والے غار کے دہانے تک بھی پہنچے لیکن اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری
Flag Counter