Maktaba Wahhabi

1031 - 644
قبیلوں نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ غدر وقتل کا یہ سلوک کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ایک مہینے تک بددعا فرمائی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو بئر معونہ پر شہید کیا تھا۔ آپ نے ان پر تیس روز تک بددعا کی۔ آپ نماز فجر میں رعل ، ذکوان لحیان اور عُصَیَّہ پر بددعا کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی معصیت کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں اپنے نبی پر قرآن نازل کیا ، جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔ وہ قرآن یہ تھا ’’ہماری قوم کو یہ بتلادو کہ ہم اپنے رب سے ملے تو وہ ہم سے راضی ہے اور ہم اس سے راضی ہیں۔ ‘‘ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا یہ قنوت ترک فرمادیا۔[1] ۵۔ غزوہ بنی نضیر: ہم بتا چکے ہیں کہ یہود اسلام اور مسلمانوں سے جلتے بھُنتے تھے ، مگر چونکہ وہ مردِ میدان نہ تھے۔ سازشی اور دسیسہ کار تھے ، اس لیے جنگ کے بجائے کینے اور عداوت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اور مسلمانوں کو عہد وپیمان کے باوجود اذیت دینے کے لیے طرح طرح کے حیلے اور تدبیریں کرتے تھے۔ البتہ بنو قَینُقاع کی جلاوطنی اور کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ پیش آیا تو ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ اور انہوں نے خوفزدہ ہو کر خاموشی اور سکون اختیار کر لیا۔ لیکن غزوۂ احد کے بعد ان کی جرأت پھر پلٹ آئی۔ انہوں نے کھلم کھلا عداوت وبد عہدی کی۔ مدینہ کے منافقین اور مکے کے مشرکین سے پس پردہ ساٹ گانٹھ کی۔ اور مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی حمایت میں کام کیا۔[2] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کچھ جانتے ہوئے صبر سے کام لیا لیکن رجیع اور معونہ کے حادثات کے بعد ان کی جرأت وجسارت حد سے بڑھ گئی۔ اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے خاتمے کا پروگرام بنالیا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ہمراہ یہود کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے بنو کلاب کے ان دونوں مقتولین کی دیت میں اعانت کے لیے بات چیت کی ۔ (جنہیں حضرت عَمرو بن اُمیہ ضَمری نے غلطی سے قتل کردیا تھا ) ان پر معاہدہ کی رُو سے یہ اعانت واجب تھی۔ انہوں
Flag Counter