Maktaba Wahhabi

917 - 644
ہم جنگ میں پامرد اور لڑنے میں جوانمرد ہیں اور ممکن ہے اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارا وہ جوہر دکھلائے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں ، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہمراہ لے کر چلیں، اللہ برکت دے۔‘‘ ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ غالبا ً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ ہے کہ انصار اپنا یہ فرض سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد محض اپنے دیا ر میں کریں اس لیے میں انصار کی طرف سے بول رہا ہوں اور ان کی طرف سے جواب دے رہاہوں۔ عرض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں چاہیں تشریف لے چلیں ، جس سے چاہیں تعلق استوار کریں اور جس سے چاہیں تعلق کاٹ لیں۔ ہمارے مال میں سے جو چاہیں لے لیں اور جو چاہیں دے دیں اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے لیں گے وہ ہمارے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ ہوگا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ دیں گے اور اس معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جوبھی فیصلہ ہوگا ہمار ا فیصلہ بہرحال اس کے تابع ہوگا۔ اللہ کی قسم !اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیش قدمی کرتے ہو ئے برکِ غماد تک جائیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ ساتھ چلیں گے اور اگر آپ ہمیں لے کر سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی کود جائیں گے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نشاط طاری ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’چلو اور خوشی خوشی چلو۔ اللہ نے مجھ سے دوگروہوں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا ہے۔ واللہ! اس وقت گویا میں قوم کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ اسلامی لشکر کا بقیہ سفر: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذفران سے آگے بڑھے اور چند پہاڑی موڑ سے گزر کر جنہیں اصافر کہا جاتا ہے دیت نامی ایک آبادی میں اترے۔ اور حنان نامی پہاڑ نماتودے کو دائیں ہاتھ چھوڑ دیا۔ اور اس کے بعد بدر کے قریب نزول فرمایا۔ جاسوسی کا اقدام: یہاں پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفیق ِ غار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لیا اور حود فراہمی ٔ اطلاعات کے لیے نکل پڑے۔ ابھی دور ہی سے مکی لشکر کے کیمپ کا جائزہ لے رہے تھے کہ ایک بوڑھا عرب مل گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قریش اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم واصحابِ محمد کا حال دریافت کیا ۔ دونوں لشکر وں کے متعلق پو چھنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت پر پردہ پڑارہے ۔ لیکن بڈھے نے کہا :’’ جب تک تم لوگ یہ نہیں بتاؤ گے کہ تمہارا تعلق کس قوم سے ہے میں بھی کچھ نہیں بتاؤں گا۔‘‘ رسول اللہ
Flag Counter