Maktaba Wahhabi

951 - 644
دسیسہ کا ریوں اور باہم لڑانے بھڑانے کی راہ اپنائی۔ یہود کے ایک گروہ نے کھلم کھلا رنج وعداوت اور غیظ وغضب کا مظاہرہ کیا۔ اہل ِ مکہ نے کمر توڑ ضرب کی دھمکیاں دینی شروع کیں اور بدلہ اور انتقام لینے کا کھلا اعلان کیا۔ ان کی جنگی تیاریاں بھی کھلے عام ہورہی تھیں ، گویا وہ زبان ِ حال سے مسلمانوں کو یہ پیغام دے رہے تھے۔ ولا بد من یوم أغرّ محجل یطول استماعی بعدہ للنوادب ’’ایک ایسا روشن اور تابناک دن ضرور ی ہے جس کے بعد عرصہ ٔ دراز تک نوحہ کرنے والیوں کے نوحے سنتا رہوں۔‘‘ اور سال بھر کے بعد وہ عملاً ایک ایسی معرکہ آرائی کے لیے مدینے کی چہاردیواری تک چڑھ آئے جو تاریخ میں غزوہ احد کے نام سے معروف ہے اور جس کا مسلمانوں کی شہرت اور ساکھ پر برا اثر پڑا تھا۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں نے بڑے اہم اقدامات کیے جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قائدانہ عبقریت کا پتا چلتا ہے اور یہ واضح ہوتا ہے کہ مدینے کی قیادت گرد وپیش کے ان خطرات کے سلسلے میں کس قدر بیدار تھی اور ان سے نمٹنے کے لیے کتنے جامع منصوبے رکھتی تھی۔ اگلی سطور میں اسی کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا جارہا ہے: ۱۔ غزوہ بنی سلیم بہ مقام کدر: غزوہ بدر کے بعد سب سے پہلی خبر جو مدینے کے شعبۂ اطلاعات نے فراہم کی وہ یہ تھی کہ قبیلۂ غطفان کی شاخ بنو سُلیم کے لوگ مدینے پر چڑھائی کے لیے فوج جمع کررہے ہیں۔ اس کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسو سواروں کے ساتھ ان پر خود ان کے اپنے علاقے میں اچانک دھا وا بول دیا اور مقام کدر [1]میں ان کی منازل تک جاپہنچے۔ بنوسلیم میں اس اچانک حملے سے بھگدڑ مچ گئی اور وہ افراتفری کے عالم میں وادی کے اندر پانچ سو اونٹ چھوڑ کر بھا گ گئے۔ جس پر لشکر ِ مدینہ نے قبضہ کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خمس نکال کر بقیہ مالِ غنیمت مجاہدین میں تقسیم کردیا۔ ہر شخص کے حصے میں دو دو اونٹ آئے۔ اس غزوے میں یسار نامی ایک
Flag Counter