Maktaba Wahhabi

1190 - 644
شام کی عبادت کو نہیں پہنچ سکتے۔[1] ________________________ یہ ہے غزوۂ فتح مکہ ۔ یہی وہ فیصلہ کن معرکہ اور فتح اعظم ہے جس نے بت پرستی کی قوت مکمل طور پر توڑ کررکھ دی اور اس کاکام اس طرح تمام کر دیا کہ جزیرۃ العرب میں اس کے باقی رہنے کی کوئی گنجائش اور کوئی وجہ جواز نہ رہ گیا۔ کیونکہ عام قبائل منتظر تھے کہ مسلمانوں اور بت پرستوں میں جو معرکہ آرائی چل رہی ہے دیکھیں اس کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ ان قبائل کو یہ بات بھی اچھی طرح معلوم تھی کہ حرم پر وہی مسلّط ہوسکتا ہے جو حق پر ہو۔ ان کے اس اعتقاد ِ جازم میں مزید حد درجہ پختگی نصف صدی پہلے اصحابِ فیل اَبْرَہَہ اور اس کے ساتھیوں کے واقعہ سے آگئی تھی۔ کیونکہ اہلِ عرب نے دیکھ لیا تھا کہ ابرہہ اور اس کے ساتھیوں نے بیت اللہ کا رُخ کیا تو اللہ نے انہیں ہلاک کر کے بھُس بنادیا۔ یاد رہے کہ صلح حدیبیہ اس فتح عظیم کا پیش خیمہ اورتمہید تھی۔ اس کی وجہ سے امن امان کا دَور دورہ ہو گیا تھا۔ لوگ کھل کر ایک دوسرے سے باتیں کرتے تھے۔ اسلام کے متعلق تبادلۂ خیال اور بحثیں ہوتی تھیں، مکہ کے جو لوگ درپردہ مسلمان تھے ، انہیں بھی اس صلح کے بعد اپنے دین کے اظہار وتبلیغ اور اس پر بحث ومناظرہ کا موقع ملا۔ ان حالات کے نتیجے میں بہت سے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ یہاں تک کہ اسلامی لشکر کی جو تعداد گزشتہ کسی غزوے میں تین ہزار سے زیادہ نہ ہوسکی تھی اس غزوۂ فتح مکہ میں دس ہزار تک جا پہنچی۔ اس فیصلہ کن غزوے نے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں اور ان پر پڑا ہوا وہ آخری پر دہ ہٹا دیا جو قبول اسلام کی راہ میں روک بنا ہوا تھا۔ اس فتح کے بعد پورے جزیرۃ العرب کے سیاسی اوردینی اُفق پر مسلمانوں کا سورج چمک رہا تھا اور اب دینی سربراہی اوردنیوی قیادت کی زمام ان کے ہاتھ آچکی تھی۔ گویا صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کی موافقت میں جو مفید تغیر شروع ہوا تھا اس فتح کے ذریعے مکمل اور تما م ہوگیا۔ اور اس کے بعد دوسرا دور شروع ہوا جو پورے طور پر مسلمانوں کے حق میں تھا اور جس میں پوری صورت حال مسلمانوں کے قابو میں تھی اور عرب اقوام کے سامنے صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ وفود کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیں۔ اور آپ کی دعوت لے کر چار دانگ عالم میں پھیل جائیں۔ اگلے دوبرسوں میں اسی کی تیاری کی گئی۔ ٭٭٭
Flag Counter