Maktaba Wahhabi

1163 - 644
تعاقب کی بات نہ سوچی۔ ادھر مسلمان کامیابی اورسلامتی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور بھر مدینہ واپس آگئے۔[1] فریقین کے مقتولین : اس جنگ میں بارہ مسلمان شہید ہوئے۔ رومیوں کے مقتولین کی تعداد کا علم نہ ہوسکا۔ البتہ جنگ کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں مارے گئے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب تنہا حضرت خالد کے ہاتھ میں نو تلوار یں ٹوٹ گئیں تو مقتولین اور زخمیوں کی تعداد کتنی رہی ہوگی۔ اس معرکے کا اثر : اس معرکے کی سختیاں جس انتقام کے لیے جھیلی گئی تھیں ، مسلمان اگرچہ وہ انتقام نہ لے سکے ، لیکن اس معرکے نے مسلمانوں کی ساکھ اور شہرت میں بڑا اضافہ کیا۔ اس کی وجہ سے سارے عرب انگشت بدنداں رہ گئے۔ کیونکہ رومی اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑی قوت تھے۔ عرب سمجھتے تھے کہ ان سے ٹکرانا خودکشی کے مترادف ہے۔ اس لیے تین ہزار کی ذرا سی نفری کا دولاکھ کے بھاری بھرکم لشکر سے ٹکرا کر کوئی قابل ذکر نقصان اٹھائے بغیر واپس آجانا عجوبۂ روزگار سے کم نہ تھا۔ اور اس سے یہ حقیقت بڑی پختگی کے ساتھ ثابت ہوتی تھی کہ عرب اب تک جس قسم کے لوگوں سے واقف اور آشنا تھے ، مسلمان ان سے الگ تھلگ ایک دوسری ہی طرز کے لوگ ہیں۔ وہ اللہ کی طرف سے مویّد ومنصور ہیں اور ان کے راہنما واقعتااللہ کے رسول ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ضدی قبائل جو مسلمانوں سے مسلسل برسرِپیکار رہتے تھے ، اس معرکے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہوگئے۔ چنانچہ بنو سلیم ، اشجع ، غطفان ، ذیبان اور فزارہ وغیرہ قبائل نے اسلام قبول کرلیا۔ یہی معرکہ ہے جس سے رومیوں کے ساتھ خونریز ٹکر شروع ہوئی ،جو آگے چل کر رومی ممالک کی فتوحات اور دُور دراز علاقوں پر مسلمانوں کے اقتدار کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ سریہ ذات السلاسل : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معرکہ ٔ موتہ کے سلسلے میں مشارف شام کے اندر رہنے والے عرب قبائل کے موقف کا علم ہوا کہ وہ مسلمانوں سے لڑنے کے لیے رومیوں کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی حکمتِ بالغہ کی ضرورت محسوس کی جس کے ذریعے ایک طرف تو ان عرب قبائل اور رومیوں کے درمیان تفرقہ پڑجائے۔ اور دوسری طرف خود مسلمانوں سے ان کی دوستی ہوجائے تاکہ اس علاقے میں دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اتنی بڑی جمعیت فراہم
Flag Counter