Maktaba Wahhabi

1242 - 644
دعوت کی کامیابی اور اثرات اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری ایام کے تذکرہ تک پہنچ رہے ہیں۔ لیکن اس تذکرہ کے لیے رہوا ر قلم کوآگے بڑھانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ذرا ٹھہر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جلیل الشان عمل پر ایک اجمالی نظر ڈالیں ، جو آپ کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ اور جس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام نبیوں اور پیغمبروں میں یہ امتیازی مقام حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سر پر اوّلین وآخرین کی سیادت کا تاج رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ ﴿ يَاأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ، قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ﴾(الزمل ۷۳: ۱ ،۲) ’’اے چادر پوش ! رات میں کھڑا ہو مگر تھوڑ ا‘‘ اور ﴿ يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ، قُمْ فَأَنْذِرْ ﴾ (المدثر۷۴: ۱، ۲) ’’اے کمبل پوش ! اٹھ او ر لوگوں کو سنگین انجام سے ڈرا دے۔‘‘ پھر کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور اپنے کاندھے پر اس روئے زمین کی سب سے بڑی امانت کا بار ِ گراں اٹھائے مسلسل کھڑے رہے۔ یعنی ساری انسانیت کابوجھ ، سارے عقیدے کا بوجھ ، اورمختلف میدان میں جنگ وجہاد اور تگ وتاز کا بوجھ۔ آپ نے اس انسانی ضمیر کے میدان میں جنگ وجہاد اورتگ وتاز کا بوجھ اٹھایا جو جاہلیت کے اوہام و تصورات کے اندر غرق تھا۔ جسے زمین اور اس کی گونا گوں کشش کے بار نے بوجھل کر رکھا تھا۔ جو شہوات کی بیڑیوں اور پھندوں میں جکڑا ہوا تھا۔ اور جب اس ضمیر کو اپنے بعض صحابہ کی صورت میں جاہلیت اور حیات ِ ارضی کے تہہ در تہہ بوجھ سے آزاد کر لیا تو ایک دوسرے میدان میں ایک دوسرا معرکہ ، بلکہ معرکوں پر معرکے شروع کردیے۔ یعنی دعوت ِ الٰہی کے وہ دشمن جو دعوت اور اس پر ایمان لانے والوں کے خلاف ٹوٹے پڑ رہے تھے ، اور اس پاکیزہ پودے کو پنپنے ، مٹی کے اندر جڑ پکڑنے ، فضا میں شاخیں لہرانے ، اور پھلنے پھولنے سے پہلے اس کی
Flag Counter