Maktaba Wahhabi

1201 - 644
مجھے نہ بخیل پاؤ گے ، نہ بزدل ، نہ جھوٹا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ کے بازو میں کھڑے ہوکر اس کی کوہان سے کچھ بال لیے اور چٹکی میں رکھ کر بلند کرتے ہوئے فرمایا : لوگو! واللہ میرے لیے تمہارے مالِ فے میں سے کچھ بھی نہیں، حتیٰ کہ اتنا بال بھی نہیں۔ صرف خُمس ہے اور خمس بھی تم پر ہی پلٹا دیا جاتا ہے۔ مؤلّفَۃ القلوب کو دینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ مالِ غنیمت اور فوج کو یکجا کرکے لوگوں پر غنیمت کی تقسیم کا حساب لگائیں۔ انہوں نے ایسا کیا تو ایک ایک فوجی کے حصے میں صرف چار چار اونٹ یا چالیس چالیس بکریاں آئیں۔ جو شہسوار تھا اسے بارہ اونٹ یا ایک سو بیس بکریا ں ملیں۔ یہ تقسیم ایک حکیمانہ سیاست پر مبنی تھی کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی عقل کے راستے سے نہیں بلکہ پیٹ کے راستے سے حق پر لائے جاتے ہیں ۔ یعنی جس طرح جانوروں کو ایک مٹھی ہری گھاس دکھلادیجئے اور وہ اس کی طرف بڑھتے لپکتے اپنے محفوظ ٹھکانے تک جا پہنچتے ہیں اسی طرح مذکورہ قسم کےانسانوں کے لیے بھی مختلف ڈھنگ کے اسباب کشش کی ضرورت پڑتی ہےتاکہ وہ ایمان سے مانوس ہو کر اس کےلیے پرجوش بن جائیں ۔ [1] انصار کا حزن واضطراب: یہ سیاست پہلے پہل سمجھی نہ جاسکی، اس لیے کچھ زبانوں پر حرفِ اعتراض آگیا۔ انصار پر خصوصاً اس سیاست کی زور پڑی تھی ___ کیونکہ وہ سب کے سب حنین کے ان عطایا سے بالکلیہ محروم رکھے گئے ۔ حالانکہ مشکل کےوقت انہیں کو پکارا گیا تھا اور وہی اڑ کر آئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر اس طرح جنگ کی تھی کہ فاش شکست شاندار فتح میں تبدیل ہو گئی تھی لیکن اب وہ دیکھ رہےتھے کہ بھاگنے والوں کے ہاتھ پر ہیں اوروہ خود محروم و تہی دست۔ [2] ابن اسحاق نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اورقبائل عرب کو وہ عطیے دیئے۔ اور انصار کو کچھ نہ دیا تو انصار نے جی ہی جی میں پیچ وتاب کھایا۔ اور ان میں بہت چہ میگوئی ہوئی۔ یہاں تک کہ ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم سے جا ملے ہیں۔ اس کے بعد حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ !
Flag Counter