Maktaba Wahhabi

1219 - 644
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’رازداں‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی واقعہ سے متعلق اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ ﴿وَہَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا ﴾ ’’انہوں نے اس کام کا قصد کیا جسے وہ نہ پاسکے۔‘‘ خاتمہ ٔ سفر پر جب دور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کے نقوش دکھائی پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ رہا طابہ ، اور یہ رہا اُحد ، یہ وہ پہار ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور جس سے ہم محبت کرتے ہیں۔ ادھر مدینہ میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر پہنچی تو عورتیں بچے اور بچیاں باہر نکل پڑیں۔ اور زبردست اعزاز کے ساتھ لشکر کا استقبال کرتے ہوئے یہ نغمہ گنگنایا۔[1] طلع البدر علینا من ثنیات الوداع وجب الشکر علینا ما دعا للّٰه داع ’’ہم پر ثنیۃ الوداع سے چودھویں کا چاند طلوع ہوا۔ جب تک پکارنے والااللہ کو پکارے ہم پر شکر واجب ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے رجب کے مہینے میں واپس پہنچے۔ 2اس سفر میں پورے پچاس روز صرف ہوئے۔ بیس دن تبوک میں اور تیس دن آمد ورفت میں۔ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ کا آخری غزوہ تھا جس میں آپ نے بہ نفس ِ نفیس شرکت فرمائی۔ مخلفین: یہ غزوہ اپنے مخصوص حالات کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سخت آزمائش بھی تھا۔ جس سے اہل ِ ایمان اور دوسرے لوگوں میں تمیز ہوگئی۔ اور اس قسم کے موقع پر اللہ کا دستور بھی یہی ہے۔ ارشاد ہے : ﴿مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ﴾ (۳: ۱۷۹) ’’اللہ مومنین کو اسی حالت پر چھوڑ نہیں سکتا جس پر تم لوگ ہو یہاں تک کہ خبیث کو پاکیزہ سے علیحدہ کردے۔ ‘‘ چنانچہ اس غزوہ میں سارے کے سارے مومنین صادقین نے شرکت کی اور اس سے غیر حاضری نفاق کی علامت قرار پائی۔ چنانچہ کیفیت یہ تھی کہ اگر کوئی پیچھے رہ گیا تھا اور اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا جاتا تو آپ فرماتے کہ اسے چھوڑ و۔ اگر اس میں خیر ہے تو اللہ اسے جلدہی تمہارے پاس پہنچادے گا اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اللہ نے تمہیں اس سے راحت دے دی ہے۔ غرض اس غزوے سے یاتو وہ لوگ پیچھے رہے جو معذور تھے یاوہ لوگ جو منافق تھے۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے ایمان کا جھوٹا
Flag Counter