Maktaba Wahhabi

783 - 644
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہین تب میں نے کہا پھر چھپنا کیسا؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ہم ضرور باہر نکلیں گے۔چنانچہ ہم دو صفوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمراہ لے کر باہر آئے۔ایک صف میں حمزہ رضی اللہ عنہ تھے اور ایک میں میں تھا۔ہمارے چلنے سے چکی کے آٹے کی طرح ہلکا ہلکا غبار اڑ رہا تھا،یہاں تک کہ ہم مسجدحرام میں داخل ہو گئے،حضرت عمر رضی اللہ کا بیان ہے کہ قریش نے مجھے اور حمزہ کو دیکھا تو انکے دل پر ایسی چوٹ لگی کہ اب تک نہ لگی تھی۔اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا لقب فاروق رکھ دیا۔[1] حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ ہم خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھنے پر قادر نہ تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔[2] حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو اسلام پردے سے باہر آیا۔اس کی اعلانیہ دعوت دی گئی۔ہم حلقے لگا کر بیت اللہ کے گرد بیٹھے، بیت اللہ کا طواف کیا، اور جس نے ہم پر سختی کی اس سے انتقام لیا۔اور انکے بعض مظالم کا جواب دیا۔[3] حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تب سے ہم برابر طاقتور اور باعزّت رہے۔[4] قریش کا نمائندہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں: ان دونوں بطل جلیل یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب کے مسلمان ہو جانے کے بعد ظلم و طغیان کے بادل چھٹنے شروع ہو گئے اور مسلمانوں کو جوروستم کا تختہ مشق بنانے کیلئے مشرکین پر جو بدمستی چھائی ہوئی تھی اس کی جگہ سوجھ بوجھ نے لینی شروع کی۔چنانچہ مشرکین نے یہ کوشش کی کہ اس دعوت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو منشا اور مقصود ہو سکتا ہے اسے فراواں مقدار میں فراہم کرنے کی پیشکش کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی دعوت و تبلیغ سے باز رکھنے کے لئے سودے بازی کی جائے لیکن ان غریبوں کو پتہ نہیں تھا کہ وہ پوری کائنات، جس پر سورج طلوع ہوتا ہے آپ کی دعوت کے مقابل پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتی اس لئے انہیں اپنے اس منصوبے پر ناکام و نامراد ہونا پڑا۔
Flag Counter