Maktaba Wahhabi

1105 - 644
دے گا۔ یہ بات سن کر ابو بصیر سمجھ گئے کہ اب انہیں پھر کافروں کے حوالے کیا جائے گا۔ اس لیے وہ مدینہ سے نکل کر ساحل سمندر پر آگئے۔ ادھر ابو جندل بن سہیل بھی چھوٹ بھاگے اور ابو بصیر سے آملے۔ اب قریش کا جو آدمی بھی اسلام لاکر بھاگتا وہ ابو بصیر سے آملتا۔ یہاں تک کہ ان کی ایک جماعت اکٹھی ہوگئی۔ اس کے بعد ان لوگوں کو ملک شام آنے جانے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتاتو وہ اس سے ضرور چھیڑ چھاڑ کرتے اور قافلے والوں کو مار کر ان کا مال لوٹ لیتے۔ قریش نے تنگ آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دیتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ آپ انہیں اپنے پاس بلالیں۔ اور اب جو بھی آپ کے پاس جائے گا مامون رہے گا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بلوالیا اور وہ مدینہ آگئے۔[1] بردران قریش کا قبولِ اسلام: اس معاہدہ ٔ صلح کے بعد ۷ھ کے اوائل میں حضرت عَمرو بن عاص ،خالد بن ولید اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم مسلمان ہوگئے۔ جب یہ لوگ خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا : مکہ نے اپنے جگر گوشو ں کو ہمارے حوالے کردیا ہے۔[2] ٭٭٭
Flag Counter