Maktaba Wahhabi

1245 - 644
حجۃ الوداع دعوت وتبلیغ کاکام پورا ہوگیا۔ اور اللہ کی الوہیت کے اثبات ، اس کے ماسوا کی الوہیت کی نفی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی بنیاد پر ایک نئے معاشرے کی تعمیر وتشکیل عمل میں آگئی۔ اب گویا غیبی ہاتف آپ کے قلب وشعور کو یہ احساس دلارہا تھا کہ دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کا زمانہ اختتام کے قریب ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ۱۰ ھ میں یمن کا گورنر بنا کر روانہ فرمایا تو رخصت کرتے ہوئے منجملہ اور باتوں کے فرمایا : اے معاذ! غالباً تم مجھ سے میرے اس سال کے بعد نہ مل سکو گے۔ بلکہ غالباً میری اس مسجد اورمیری اس قبر کے پاس سے گذرو گے۔ اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم سے رونے لگے۔ درحقیقت اللہ چاہتا تھا کہ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دعوت کے ثمرات دکھلادے جس کی راہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس برس سے زیادہ عرصہ تک طرح طرح کی مشکلات اور مشقتیں برداشت کی تھیں۔ اور اس کی صورت یہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے موقع پر اطرافِ مکہ میں قبائلِ عرب کے افراد و نمائندگان کے ساتھ جمع ہوں۔ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کے احکام وشرائع حاصل کریں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یہ شہادت لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت ادا کردی۔ پیغام ِ رب کی تبلیغ فرمادی۔ اور امّت کی خیر خواہی کا حق ادا فرمادیا۔ اس مَشیّتِ ایزدی کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس تاریخی حجِ مبرور کے لیے اپنے ارادے کا اعلان فرمایا۔ تو مسلمانانِ عرب جوق درجوق پہنچنا شروع ہوگئے۔ ہر ایک کی آرزو تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش ِ پاکو اپنے لیے نشان ِ راہ بنائے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرے۔[1]پھر سنیچر کے دن جبکہ ذی قعدہ میں چار د ن باقی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کی تیاری فرمائی۔[2]بالو ں میں کنگھی کی۔ تیل لگایا۔ تہبند پہنا ، چادر اوڑھی ، قربانی کے
Flag Counter