Maktaba Wahhabi

1153 - 644
عمرہ ٔ قضا امام حاکم کہتے ہیں : یہ خبرتواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ جب ذی قعدہ کا چاند ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اپنے عمرہ کی قضاء کے طور پرعمرہ کریں اور کوئی بھی آدمی جو حدیبیہ میں حاضرتھا پیچھے نہ ہے۔ چنانچہ (اس مدت میں ) جو لوگ شہید ہوچکے تھے انہیں چھوڑ کربقیہ سب ہی لوگ روانہ ہوئے۔ اور اہلِ حدیبیہ کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی عمرہ کرنے کے لیے ہمراہ نکلے۔ اس طرح تعدا ددوہزار ہوگئی، عورتیں اور بچے ان کے علاوہ تھے۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ابو رھم غفاری رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔ ساٹھ اونٹ ساتھ لیے اور ناجیہ بن جندب اسلمی کو ان کی دیکھ بھال کاکام سونپا۔ ذو الحلیفہ سے عمرہ کا احرام باندھا۔ اور لبیک کی صدا لگائی۔ آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی لبیک پکارا۔ اور قریش کی جانب سے بدعہدی کے اندیشے کے سبب ہتھیار اور جنگجو افراد کے ساتھ مستعد ہوکر نکلے۔ جب وادی یَا جِجْ پہنچے تو سارے ہتھیار، یعنی ڈھال ، سپر ، نیزے سب رکھ دیے اور ان کی حفاظت کے لیے اوس بن خولی انصاری رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں دوسو آدمی وہیں چھوڑ دیے اور سوار کا ہتھیار اور میان میں رکھی ہوئی تلواریں لے کر مکہ میں داخل ہوئے۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخلے کے وقت اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار تھے۔ مسلمانوں نے تلواریں حمائل کررکھی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیرے میں لیے ہوئے لبیک پکار رہے تھے۔ مشرکین مسلمانوں کا تماشہ دیکھنے کے لیے (گھروں سے ) نکل کر کعبہ کے شمال میں واقع جبل قعیقعان پر (جابیٹھے تھے ) انہوں نے آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے پاس ایک ایسی جماعت آرہی ہے جسے یثرب کے بخار نے توڑ ڈالا ہے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ پہلے تین چکردوڑ کر لگائیں۔ البتہ رکن یمانی اورحجرِ اسود کے درمیان صرف چلتے ہوئے گزریں۔ کُل (ساتوں ) چکر دوڑ کر لگانے کا حکم محض اس لیے نہیں دیا کہ رحمت وشفقت مقصود تھی۔ اس حکم کا منشاء یہ تھا کہ مشرکین آپ کی قوت کا مشاہدہ کرلیں۔[3] اس کے علاوہ آپ نے صحابہ کرام کو اضطباع کا بھی حکم دیا۔ اضطباع کا مطلب یہ ہے کہ دایاں
Flag Counter