Maktaba Wahhabi

894 - 644
یہود کے ساتھ معاہد ہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کے درمیان عقیدے ، سیا ست اور نظام کی وحدت کے ذریعے ایک نئے اسلامی معاشرے کی بنیادیں استوار کرلیں تو غیر مسلموں کے ساتھ اپنے تعلقات منظم کرنے کی طرف توجہ فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ تھا کہ ساری انسانیت امن وسلامتی کی سعادتوں اور برکتوں سے بہرہ ور ہو اور اس کے ساتھ ہی مدینہ اور اس کے گرد وپیش کا علاقہ ایک وفاقی وحدت میں منظم ہوجائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رواداری اور کشادہ دلی کے ایسے قوانین مسنون فرمائے جن کااس تعصب اور غلو پسندی سے بھری ہوئی دنیا میں کوئی تصور ہی نہ تھا۔ جیسا کہ ہم بتاچکے ہیں مدینے کے سب سے قریب ترین پڑوسی یہود تھے۔ یہ لوگ اگرچہ درپردہ مسلمانوں سے عداوت رکھتے تھے لیکن انہوں نے اب تک کسی محاذ آرائی اور جھگڑے کا اظہار نہیں کیا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ منعقد کیا ، جس میں انہیں دین ومذہب اور جان ومال کی مطلق آزادی دی گئی تھی اور جلاوطنی ، ضبطی ٔ جائیداد یاجھگڑے کی سیاست کا کوئی رُخ اختیار نہیں کیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ اسی معاہدے کے ضمن میں ہوا تھا جوخود مسلمانوں کے درمیان باہم طے پایا تھا اور جس کا ذکر قریب ہی گزر چکا ہے۔ آگے اس معاہدے کی اہم دفعات پیش کی جارہی ہیں۔ معاہدے کی دفعات: 1۔ بنوعوف کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک ہی امّت ہوں گے۔ یہود اپنے دین پر عمل کریں گے اور مسلمان اپنے دین پر۔ خود ان کا بھی یہی حق ہوگا ، اور ان کے غلاموں اور متعلقین کا بھی اور بنوعوف کے علاوہ دوسرے یہود کے بھی یہی حقوق ہوں گے۔ 2۔ یہود اپنے اخراجات کے ذِمے دار ہوں گے اور مسلمان اپنے اخراجات کے۔ 3۔ اور جو طاقت اس معاہدے کے کسی فریق سے جنگ کرے گی سب اس کے خلاف آپس
Flag Counter