Maktaba Wahhabi

797 - 644
یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ابوطالب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر حمایت و حفاظت کی تھی۔ وہ درحقیقت مکے کے بڑوں اور احمقوں کے حملوں سے اسلامی دعوت کے بچاؤ کے لیے ایک قلعہ تھے، لیکن وہ بذاتِ خود اپنے بزرگ آباؤ اجداد کی ملّت پر قائم رہے۔ اس لیے مکمل کامیابی نہ پا سکے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: ‘‘آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے چچا کے کیا کام آسکے؟ کیونکہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے لیے (دوسروں پر)بگڑتے (اور ان سے لڑائی مول لیتے) تھے۔’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ جہنم کی ایک چھچھلی جگہ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے گہرے کھڈ میں ہوتے۔‘‘[1] ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے چچا کا تذکرہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ممکن ہے قیامت کے دن انھیں میری شفاعت فائدہ پہنچا دے اور انھیں جہنم کی ایک کم گہری جگہ میں رکھ دیا جائے کہ آگ صرف ان کے دونوں ٹخنوں تک پہنچ کے۔‘‘ [2] حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جوارِ رحمت میں: جناب ابوطالب کی وفات کے دو ماہ بعد یا صرف تین دن بعد.... علی اختلاف الاقوال.... حضرت اُمّ المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا بھی رحلت فرما گئیں۔ ان کی وفات نبوت کے دسویں سال ماہِ رمضان میں ہوئی۔ اس وقت وہ ۶۵ برس کی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر کی پچاسویں منزل میں تھے۔ [3] حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ کی بڑی گرانقدر نعمت تھیں۔ وہ ایک چوتھائی صدی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفات میں رہیں اور اس دوران رنج و قلق کا وقت آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تڑپ اٹھتیں، سنگین اور مشکل ترین حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قوت پہنچاتیں، تبلیغِ رسالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتیں اور اس تلخ ترین جہاد کی سختیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریک کار رہتیں۔ اور اپنی جان و مال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی و غمگساری کرتیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
Flag Counter