Maktaba Wahhabi

776 - 644
خاموش رہے، اور کچھ بھی نہ کہا لیکن اس کے بعد اس نے آپ (ص) کے سر پر ایک پتھر دے مارا، جس سے ایسی چوٹ آئی کہ خون بہ نکلا۔ پھر وہ خانہء کعبہ کے پاس قریش کی مجلس میں‌ جا بیٹھا۔ عبداللہ بن جُدعان کی ایک لونڈی کوہ صفا پر واقع اپنے مکان سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کمان حمائل کئے شکار سے واپس تشریف لائے تو اس نے ان سے ابو جہل کی ساری حرکت کہہ سنائی۔ حضرت حمزہ (رض) غصے سے بھڑک اٹھے۔۔۔ یہ قریش کے سب سے طاقتور اور مضبوط جوان تھے۔ ماجرا سن کر کہیں‌ ایک لمحہ رکے بغیر دوڑتے ہوئے اور یہ تہیہ کئے ہوئے آئے کہ جوں ہی ابو جہل کا سامنا ہوگا، اس کی مرمت کر دیں ‌گے۔ چنانچہ مسجد حرام میں داخل ہو کر سیدھے اس کے سر پر جا کھڑے ہوئے اور بولے: “او سرین پر خوشبو لگانے والے بُزدل! تو میرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں بھی اسی کے دین پر ہوں“۔ اس کے بعد کمان سے اس زور کی مار ماری کہ اس کے سر پر بد ترین قسم کا زخم آ گیا۔ اس پر ابو جہل کے قبیلے بنو مخزوم اور حضرت حمزہ (رض) کے قبیلے بنو ہاشم کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک اٹھے۔ لیکن ابو جہل نے یہ کہہ کر خاموش کر دیا کہ ابو عمارہ کو جانے دو۔ میں نے واقعی اس کے بھتیجے کو بہت بُری گالی دی تھی۔ [1] ابتداءً حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام محض اس حمیت کے طور پر تھا کہ ان کے عزیز کی توہین کیوں کی گئی۔ لیکن پھر اللہ نے ان کا سینہ کھول دیا۔ اور انہوں نے اسلام کا کڑا مضبوطی سے تھام لیا [2]اور مسلمانوں نے ان کی وجہ سے بڑی عزت و قوت محسوس کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام: ظلم و طغیان کے سیاہ بادلوں کی اس گھمبیر فضا میں ایک اور برق تاباں کا جلوہ نمودار ہوا جس کی چمک پہلے سے زیادہ خیرہ کن تھی، یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنی مسلمان ہو گئے۔ انکے اسلام لانے کا واقعہ 6 سن نبوی کا ہے۔[3]وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے صرف تین دن بعد مسلمان ہوئے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے اسلام لانے کے لئے دعا کی تھی۔ چنانچہ امام ترمذی نے ابن عمر سے روایت کیا ہے اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔ اسی طرح طبرانی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ
Flag Counter