Maktaba Wahhabi

1257 - 644
ہم میں سب سے زیادہ صاحب علم تھے۔ [1] پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر اپنی رفاقت اور مال میں سب سے زیادہ صاحب احسان ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ اور اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو خلیل بناتا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیل بناتا لیکن (ان کے ساتھ) اسلام کی اخوت و محبت ( کا تعلق ) ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ باقی نہ چھوڑا جائے بلکہ اسے لازما ًبند کردیا جائے، سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دروازے کے۔[2] چار دن پہلے: وفات سے چار دن پہلے جمعرات کو جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت تکلیف سے دوچار تھے فرمایا : لاؤ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم لوگ کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ اس وقت گھر میں کئی آدمی تھے۔ جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ انہوں نے کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن ہے۔ بس اللہ کی یہ کتاب تمہارے لیے کافی ہے۔ اس پر گھر کے اندر موجود لوگوں میں اختلاف پڑگیا اور وہ جھگڑ پڑے۔ کوئی کہہ رہا تھا :لاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھ دیں۔ اور کوئی وہی کہہ رہاتھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔ اس طرح لوگوں نے جب زیادہ شوروشغب اور اختلاف کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔[3] پھر اسی رو ز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ ایک اس بات کی وصیت کی یہود ونصاریٰ اور مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکال دینا۔ دوسرے اس بات کی وصیت کی کہ وفود کی اسی طرح نوازش کرنا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ البتہ تیسری بات کو راوی بھول گیا۔ غالباً یہ کتاب وسنت کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی وصیت تھی یا لشکر ِ اسامہ کو نافذ کرنے کی وصیت تھی۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد تھا کہ ’’نماز اور تمہارے زیر ِ دست ‘‘ یعنی غلاموں اور لونڈیوں کا خیال رکھنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی شدت کے باوجود اس دن تک ، یعنی وفات سے چار دن پہلے (جمعرات ) تک تمام نمازیں خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔ اس روز بھی مغرب کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے پڑھائی۔ اور اس میں سورۂ والمرسلات ِ عُرْفا پڑھی۔[4] لیکن عشاء کے وقت مرض کا ثقل اتنا بڑھ گیا کہ مسجدمیں جانے کی طاقت نہ رہی۔ حضرت عائشہ
Flag Counter