Maktaba Wahhabi

1089 - 644
اہل ِ سیر اس کے بعد ایک اور سریہ کا ذکر کرتے ہیں جسے حضرت عَمروبن امیّہ ضمری رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمہ بن ابی سلمہ کی رفاقت میں شوال ۶ ھ میں سرکیا تھا۔ اس کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ حضرت عمرو بن امیہ ضمری ابو سفیان کو قتل کرنے کے لیے مکہ تشریف لے گئے تھے کیونکہ ابو سفیان نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے ایک اعرابی کو مدینہ بھیجا تھا۔ البتہ فریقین میں سے کوئی بھی اپنی مہم میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اہل ِ سیر یہ بھی کہتے ہیں کہ اسی سفر میں حضرت عمرو بن امیہ ضمری نے تین کافروں کو قتل کیا تھا اور حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی لاش اٹھائی تھی۔حالانکہ حضرت خبیب کی شہادت کا واقعہ رجیع کے چند دن یا چند مہینے بعد کا ہے اور رجیع کا واقعہ صفر ۴ ھ کا ہے، اس لیے میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آیا یہ دونوں دو الگ الگ سفر کے واقعات تھے۔ مگر اہل ِ سیر پر مختلط اور گڈ مڈ ہوگئے۔ اور انہوں نے دونوں کو ایک ہی سفر میں ذکر کردیا ؟ یا یہ کہ واقعتا دونوں واقعے ایک ہی سفر میں پیش آئے لیکن اہلِ سیر سے سنہ کے تعیین میں غلطی ہوگئی۔ اور نہوں نے اسے ۴ ھ کے بجائے ۶ ھ میں ذکر کردیا۔ حضرت علامہ منصور پوری رحمہ اللہ نے بھی اس واقعے کو جنگی مہم یا سریہ تسلیم کر نے سے انکار کیا ہے۔ واللہ اعلم یہ ہیں وہ سرایا اور غزوات جو جنگ ِ احزاب وبنی قریظہ کے بعد پیش آئے۔ ان میں سے کسی بھی سریے یا غزوے میں کوئی سخت جنگ نہیں ہوئی۔ صرف بعض بعض میں معمولی قسم کی جھڑپیں ہوئیں۔ لہٰذا ان مہموں کو جنگ کے بجائے طلایہ گردی ، فوجی گشت اور تادیبی نقل وحرکت کہا جاسکتا ہے۔ جس کا مقصد ڈھیٹ بدوؤں اور ا کڑے ہوئے دشمنوں کو خوفزدہ کرنا تھا۔ حالات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ غزوۂ احزاب کے بعد صورت ِ حال میں تبدیلی شروع ہوگئی تھی اور اعدائے اسلام کے حوصلے ٹوٹتے جارہے تھے۔ اب انہیں یہ امید باقی نہیں رہ گئی تھی کہ دعوتِ اسلام کوتوڑا اور اس کی شوکت کو پامال کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ تبدیلی ذرا اچھی طرح کھل کر اس وقت رونما ہوئی جب مسلمان صلح حدیبیہ سے فارغ ہوچکے۔ یہ صلح دراصل اسلامی قوت کا اعتراف اور اس بات پر مہر تصدیق تھی کہ اب اس قوت کو جزیرہ نمائے عرب میں باقی اور برقراررکھنے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ ٭٭٭
Flag Counter