Maktaba Wahhabi

994 - 644
ٹکر اکر ان کا گھیرا توڑنے اور مرکز قیادت تک راستہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔ اسی دوران یہ بھی معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی خبر محض جھوٹ اور گھڑنت ہے۔ اس سے ان کی قوت اور بڑھ گئی۔ اور ان کے حوصلوں اور ولولوں میں تازگی آگئی۔ چنانچہ وہ ایک سخت اور خون ریز جنگ کے بعد گھیرا توڑ کرنرغے سے نکلنے اور ایک مضبوط مرکز کے گرد جمع ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اسلامی لشکر کا ایک تیسرا گروہ وہ تھا جسے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر تھی۔ یہ گروہ گھیراؤ کی کارروائی کا علم ہوتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پلٹا۔ ان میں سر ِ فہرست ابوبکر صدیق ، عمر بن الخطاب اور علی بن ابی طالب وغیرہم رضی اللہ عنہم تھے۔یہ لوگ مقاتلین کی صف ِ اول میں بھی سب سے آگے تھے لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے لیے خطرہ پیدا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اور دفاع کرنے والوں میں بھی سب سے آگے آگے آگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد خون ریز معرکہ: عین اس وقت جبکہ اسلامی لشکر نرغے میں آکر مشرکین کی چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد اگرد بھی خون ریز معرکہ آرائی جاری تھی۔ ہم بتاچکے ہیں کہ مشرکین نے گھیراؤ کی کارروائی شروع کی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ محض نو آدمی تھے۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو یہ کہہ کر پکار اکہ میری طرف آؤ ! میں اللہ کا رسول ہوں، تو آپ کی آواز مشرکین نے سن لی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا۔ (کیونکہ اس وقت وہ مسلمانوں سے بھی زیادہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھے ) چنانچہ انہوں نے جھپٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کردیا اور کسی مسلمان کی آمد سے پہلے پہلے اپناپور ابوجھ ڈال دیا۔ اس فوری حملے کے نتیجے میں ان مشرکین اور وہاں پر موجود نوصحابہ کے درمیان نہایت سخت معرکہ آرائی شروع ہوگئی۔ جس میں محبت وجان سپاری اور شجاعت وجانبازی کے بڑے بڑے نادر واقعات پیش آئے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُحد کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سات انصار اور دوقریشی صحابہ کے ہمراہ الگ تھلگ رہ گئے تھے۔ جب حملہ آور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل قریب پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کون ہے جو انہیں ہم سے دفع کرے اور اس
Flag Counter